مقبوضہ جموں وکشمیر میں مودی حکومت نے یکم جولائی 2024سے تین نئے فوجداری قوانین نافذ کرکے ان کے فوری اطلاق کی منظوری دی ہے۔ ان تینوں نئے قوانین کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ مقبوضہ جموںو کشمیر میں اہل کشمیر کی جاری تحریک آزادی کا مزید گلا گھوٹنا جائے۔ ان فوجداری قوانین کے نفاذ پرکشمیری اور بین الاقوامی مبصرین نے سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قوانین کا کشمیری عوام کے خلاف سوائے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا کوئی اور مقصد نہیں ہے ۔ان تینوں نئے فوجداری قوانین میں انڈین پینل کوڈ ترمیمی ایکٹ، کریمنل پروسیجر کوڈ ترمیمی ایکٹ اور انڈین ایویڈینس ترمیمی ایکٹ شامل ہیں۔یہ تینوں فوجداری قوانین کشمیری عوام کی رضامندی کے بغیر متعارف کرائے گئے، جو طویل عرصے سے اپنے ناقابل تنسیخ حق، حق خود ارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ان قوانین کے تحت کسی بھی شخص کو عمر قید یا سزائے موت دی جاسکتی ہے ۔کشمیری عوام مودی حکومت کے ان اقدامات کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنے غیرقانونی تسلط کو طول دینے کی ایک سازش کے طورپر دیکھتے ہیں ۔ عالمی برادری نے بھی مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے تین نئے فوجداری قوانین کے نفاذ پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت پر تنازعہ کشمیرکے پرامن حل اور مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کاسلسلہ ختم کرنے پر زوردیاہے ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے تین نئے فوجداری قوانین کا نفاذ پہلا اور آخری نہیں ہے ،بلکہ 2014 سے بھارت میں برسر اقتدار بی جے پی باالخصوص مودی نے کشمیری عوام کے خلاف ظلم و جبر کے تمام ہتھکنڈے آزمائے ،جن میں 05اگست2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ اور پھر مقبوضہ جموں و کشمیر کو دو حصوں جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام شامل کرناسب سے بڑا آئینی اور قانونی حملہ تھا۔اس وقت جواز پیش کیا گیا تھا کہ یہی دو دفعات بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے انضمام میں رکاوٹ ہیں لہذا ان کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ایک اور جواز جو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کیلئے بیان کیا گیا وہ یہ تھا کہ چونکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے خلاف عسکری تحریک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی لہذا جب یہ دو نوں دفعات نہیں ہوں گی تو کشمیری عوام کی تحریک بھی دم توڑ جائے گی۔آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کیساتھ ہی اہل کشمیر پر تاریخ کا بدترین فوجی محاصرہ مسلط کیا گیا،ان کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں نت نئے قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔جن میں بیالیس لاکھ غیر کشمیری جو کہ ہندو ہیں انہیں مقبوضہ جموں وکشمیر کا ڈومیسائل فراہم کیا گیا،کشمیری عوام کی سینکڑوں جائیداد و املاک جن میں زرعی اراضی ،باغات اور رہائشی مکانات شامل ہیں،پر باضابطہ قبضہ کیا گیا۔درجنوں کشمیری مسلمان ملازمین کو تحریک آزادی کیساتھ وابستگی کے بے بنیاد الزامات میں ان کی نوکریوں سے برطرف کیا گیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔پوری آزادی پسند قیادت اور کارکنوں کے علاوہ ہزاروں نوجوانوں کو گرفتار کرکے انہیں بھارت کی دور دراز جیلوں میں بند کیا گیا ہے،جہاں انہیں تمام بنیادی سہولیات سے محروم کرکے عملا موت کیلئے رکھا گیا ہے۔ تاکہ انہیں عظیم اور لازوال قربانیوں سے مزین تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرایا جائے ۔ حد تو یہ ہے کہ درجنوں خواتین بھی بدنام زمانہ تہاڑ جیل دہلی میں قید کی گئی ہیں،جو صحت کے شدید مسائل سے دوچار ہیں۔تحریک آزادی کشمیر کے بطل حریت سید علی گیلانی بارہ برسوں تک اپنے ہی گھر میں قید رکھے گئے۔انہیں اپنوں کیساتھ خوشی اور غمی میں شرکت تو دور کی بات نماز اداکرنے سے بھی روکا گیا اور پھر یکم ستمبر 2021میں جب وہ خانہ نظر بندی کے دوران ہی شہادت پر فائز ہوئے ،تو ان کی میت بھی بندوق کے بل پر بغیر کسی نماز جنازہ کے گھر کیساتھ ہی احاطے میں دفن کی گئی اوران کی قبر پر مسلح پہرداری جاری ہے۔قربانیوں کی لازوال تاریخ کے آمین محمد اشرف صحرائی بھی بھارتی جیل میں اپنے قوم سے وعدہ وفا نبھا چکے ہیں۔سید علی گیلانی کے داماد محمد الطاف شاہ تہاڑ جیل اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رہنما غلام محمد بٹ نینی تال جیل اترپردیش میں بھارتی سامراج کے سامنے سر نگوں ہونے کے بجائے موت کو گلے لگا چکے ہیں۔آج بھی تہاڑ جیل میں بیشتر ازادی پسند رہنما شدید علیل ہیں،جن میں اہل کشمیر کی بیٹی آسیہ اندرابی سرفہرست ہیں۔یہ وہی تہاڑ جیل ہے جہاں محمد مقبول بٹ اور محمد افضل گورو جیل کے احاطے میں مدفون ہیں ،جنہوں نے مقتل میں بھی آزادی پسندوں کو سر اٹھا کر جینے کا درس دیا ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی اور اس کے حواریوں کے تمام حربے یکے بعد دیگرے ناکامی سے دوچار ہیں،لہذا اب تین نئے فوجداری قوانین کا نفاذ از حد ضروری سمجھا گیا ہے۔تاکہ کشمیری عوام کو خوفزدہ کرکے تحریک آزادی کا ساتھ دینے سے روکا جاسکے۔اس کے پیچھے RSS کا وہ بنیادی نظریہ ہے ،جس میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندو تہذیب کا دوبارہ احیاء ہے،تاکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو ہندو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔حالانکہ بھارت میں حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی سادہ اکثریت سے بھی محروم رہی ہے ،گوکہ اس نے تیسری مرتبہ حکومت قائم کی ہے لیکن وہ اتحادیوں کی مرہون منت ہے اور بھارت کی اپوزیشن جماعتیں مودی کو بھرپور انداز میں آنکھیں دکھا رہی ہیں۔یکم جولائی کو ہی بھارتی اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے مودی کی جو درگت بنائی ہے وہ دیکھنے کے قابل تھی۔مودی کیلئے شرم کرو کے الفاظ جب راہول گاندھی استعمال کررہے تھے تومودی اورپوری بی جے پی بشمول بھارتی پارلیمنٹ اسپیکر اوم برلاکے چہروں پر بارہ بج رہے تھے۔ان حالات میں مودی حکومت کی جانب سے تین نئے فوجداری قوانین کا نفاذ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ کشمیری عوام کیساتھ ساتھ بھارتی مسلمانوں کو بھی دیوار کیساتھ لگایا جائے۔یہی وجہ ہے کہ مودی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں آزادی کے متلاشیوں کو جعلی الزامات میں بار بار گرفتار کر کے انہیں سیاسی سطح پر جگہ دینے سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔فسطائی مودی اورBJPنے بھارت میں ہندو آبادی کو خطرناک حد تک ہندوتوا ذہنیت کے نشہ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہندوتوا طاقتیں مسلمانوں کی جانوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنانا اپنا مقدس فریضہ سمجھ رہی ہیں۔مودی کے بھارت میں کبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں، ان کی تذلیل کی جارہی ہے اور یہاں تک کہ انہیں قتل کیا جارہا ہے۔بی جے پی کی حکمرانی والی کئی بھارتی ریاستوں خاصکر اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں بھارتی حکام مسلمانوں کے گھروں اور جائیدادواملاک کو مسمار کر رہے ہیں۔بی جے پی کی حکومت میں بھارتی مسلمانوں کو ان کے عقیدے اور ثقافت کی حفاظت پر سزا دی جا رہی ہے۔مودی حکومت بھارتی مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتی ہے ۔بھارت میں ہندو انتہا پسند مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں۔بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بے لگام تشدد نے بھارت کا نام نہاد سیکولر چہرہ بے نقاب کیا ہے ۔مودی حکومت کی طرف سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف منظم تشدد ثابت کرتا ہے کہ بھارت ایک انتہا پسند ہندو ریاست ہے۔2014 میں نریندرا مودی بھارت میں برسر اقتدار اسی نعرے پر آئے تھے،کہ ایک تو بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر،دوسرا مساجد کو مسلمانوں سے واگزار کرانا،مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ ،تین طلاق ،یکسان سول کورڈ کا نفاذ اوربھارت میں ہندوئوں کو بالادست قوت کے طور پر برتری دلانا شامل تھا۔اب تک مودی اپنے تمام انتخابی نعروں پر عملدرآمد کراچکے ہیں۔بھارتی مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنانا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ستمبر 2015 میں دادری دہلی میں محمد اخلاق کا ہجومی تشدد میں قتل کی ابتدا اب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔جن کا بیٹا بھارتی نیوی میں آفیسر بھی ہے۔محض گھر میں گوشت پکانے کے الزام میں ان کی زندگی کا چراغ گل کیا گیا۔تب سے لیکر آج تک بیسیوں مسلمان ہجومی تشدد میں شہید کیے گئے۔18 اپریل 2023 میں سابق بھارتی ممبر پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کا اترپردیش میں پولیس کی موجودگی میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے لائیو کوریج کے دوران قتل کون بھول سکتا ہے۔رواں برس ایک اور سابق ممبر پارلیمنٹ مختار انصاری کا جیل میں دوراں حراست قتل زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔2020 میں مودی کی جانب سے متنازعہ شہریت ترمیمی بل کا مقصد ا س کے سوا کیا تھا کہ مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرکے انہیں کنسٹریشن کیمپوں میں منتقل کیاجائے۔فروری 2020میں دہلی مسلم کش فسادات میں درجنوں مسلمانوں کا قتل اور پھر BBC کی جانب سے یہ انکشاف کہ دہلی پولیس اور قانوں نافذ کرنے والے دوسرے بھارتی اداروں نے ہندو انتہا پسندوں کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اصل میں یہ تمام واقعات 2000 میں گجرات مسلم کش فسادات طرز پر راستہ ہموارکرنا ہے،جب مودی نے اپنی وزارت اعلی کے دوران گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرایا،حتی کہ حاملہ مسلم خواتین کے پیٹ چاک کرکے ان کے بچوں کو آگ میں جلایا گیا۔
اب توکرنیل سنگھ نامیBJP کے فرقہ پرست رہنما کی ایک ویڈیو وائرل بھی ہوچکی ہے جس میں اسے نئی دہلی کے سنگم وہار علاقے میں پولیس افسران کی موجودگی میں دو لاکھ مسلمانوں کو ذبح کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے۔نسل کشی سے متعلق جینو سائیڈ واچ کے سربراہ پروفیسر گیگوری اسٹنٹن پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی ان کے دروازوں پر دستک دے چکی ہے۔ مودی ہندوتوا نظریے کے مطابق بھارت کی پالیسی تشکیل دے رہے ہیں اور بھارت میںمسلمان اور دیگر اقلیتیں ہمیشہ خوف ودہشت میں زندگی گزارہی ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے یا مویشیوں کو لانے یالے جانے کے بہانے قتل اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 2019میں مودی کے دوبارہ برسر اقتدارآنے کے بعد سے بھارتی حکومت نے متنازعہ پالیسیوں کو آگے بڑھایا ہے جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو واضح طور پر نظر انداز کیا گیا ہے اور ان کا مقصد لاکھوں مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنا ہے۔بلاشبہ کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو دبانے کیلئے بھارت کا ظالمانہ رویہ 5 اگست 2019 سے نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔جن میں کشمیریوں کی نظربندی کو طول دینے کیلئے ان پر کالے قوانین کا بار بار نفاذسیاسی انتقام کی بدترین شکل ہے۔البتہ مودی اور اس کے حواریوں کو یہ نہیں بھولناچاہیے کہ ان کی انتقامی پالیسیاں اہل کشمیر کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے سے روک نہیں سکتیں۔ان حالات میں مقبوضہ جموں و کشمیرمیں نظربندوں کے حقوق سے متعلق جنیوا کنونشن کی کھلم کھلا خلاف ورزی پربھارت کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔
Comments are closed.