نریندرا مودی کا پرتشدد بھارت

تحریر: محمد شہباز

نریندرا مودی بھارت میں تیسری مرتبہ راج سنگھاسن پر براجمان  ہوچکے ،بھارت بڑی تیزی کیساتھ متنوع سے ہندو انتہاپسندی میں تبدیل ہورہا ہے۔البتہ ایک معجزہ ضرور ہوا ہے کہ بی جے پی اس بار سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کرسکی۔اگر چہ مودی نے 400 پار کا نعرہ بڑی شدومد کیساتھ لگایا تھا۔تجزیہ کار اور مودی مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ 400 پار نعرے کے پیچھے ایک ہی مقصد کار فرما تھا کہ بھارتی آئین میں تبدیلیاں کرکے اس کا حلیہ ہی بگاڑنا تھا،جس کی جانب مودی اور بی جے پی نے اشارہ بھی کیا تھا۔جبکہ بھارتی لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ 400 بہانہ ہے بھارتی آئین اصل نشانہ ہے۔بی جے پی 240 تک محدود رہی ،یعنی سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کرسکی۔جس کے بعد نیتش کمار اور چند دوسری چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملاکر بھارت میں حکومت بنائی گئی۔بی جے پی حکومت کا حصہ بننے والی جماعتوں نے اس بار حصہ بقدر جثہ کے برعکس کچھ زیادہ ہی وصول کیا او ر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ بھارتی اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی بی جے پی کی پالیسیوں کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا ہے۔بی جے پی اپنی شکست کا بدلہ مسلمانوں سے لینے کا ٹھان چکی ہے۔ایک طرف جہاں مسلمانوں کو ہجومی تشد د میں قتل کرنے کا سلسلہ شدت اختیار کرگیا ہے اور مودی کے تیسری مرتبہ برسر اقتدار آنے کے مختصر عرصے میں ہجومی تشدد کے 13 واقعات رونما ہوچکے ہیں،وہیں دو ریاستوں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جاچکا ہے۔ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کے درجنوں رہائشی مکانات اور دوسری تعمیرات تجازوات کے نام پر بلڈوز کی جاچکی ہیں۔اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ جو مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے طور پر جانے پہنچانے جاتے ہیں۔کھلے عام مسلمانوں کو دھمکیاں اوران کی مساجد اور مدارس کو بند کرنے کی باتیں کرتے ہیں،مگر نہ بھارت کا آئین اور نہ ہی بھارتی نظام انصاف اس ٹگنے ہندتوا دہشت گرد کو لگام دینے میں حرکت میں آتا ہے ۔مدھیہ پردیش میں بھی بی جے پی کی ریاستی حکومت ہے اور وہاں کے وزیر اعلی شیو راج سنگھ چوہان نے حال ہی میں ایک ایسی بستی میں مسلمانوں کے سینکڑوں گھروں کو مسمار کیا ہے جو برسوں پہلے تعمیر کیے گئے  تھے ،مگر طرفہ تماشہ یہ کہ اسی بستی میں ہندو بھی رہائش پذیر ہیں اور ان کے کسی ایک گھر کو بھی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
شیو راج سنگھ چوہان نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ11 مسلمانوں کے گھروں کو اس الزام میں مسمار کرایا،کہ ان کے فریج سے گائے کا گوشت برآمد ہوا ۔مدھیہ پردیش میں گائے ذبح کرنے پر سات برس قید کی سزا ہے اور ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ بھی ملزم کے سر پر ہے۔تاہم ریاست میں مقدمے سے پہلے گائے کے ذبیحہ کے شخص کی پراپرٹی کو تباہ کرنے کا کوئی قانون نہیں،لیکن اس کے باوجود نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں خاص طور پر گائے ذبیحہ اور فرقہ وارانہ تشدد پر اکسانے جیسے الزامات کی سزا کے طور پر مسلمان گھروں کو مسمار کرنا ایک عام روایت بن چکی ہے۔ بھارت میں یہ اقلیتی مذہبی طبقہ طویل عرصے سے ہندو تواقوم پرست گروہوں کے تشدد کا شکار ہے، جو ان پر گائے ذبح کر کے ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگاتے ہیں۔مسلمانوں کا کہنا ہے کہ تجاوزات کے نام پر صرف مسلمانوں کے گھروں کو ہی تباہ کیا جاتا ہے اور کسی ہندو کے گھر کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا۔ان دونوں ریاستوں میں تقریبا 9000 مدراس کو ختم کرنے کی کوششیں بھی زور و زشور سے جاری ہیں۔جن میں زیر تعلیم ہزاروں طلبا کو تعلیمی زیور سے آراستہ کرنے کے علاوہ انہیں رہائشی سہولیات بھی فراہم ہیں۔مساجد پر دن دیہاڑے حملے بھی جاری ہیں اور پھر مسلمانوں کی FIRبھی درج نہیں کی جاتی۔
بھارتی ریاستوں اترپردیش اور اترا کھنڈ میں ہندوئوں کی سالانہ کنور یاترا کیلئے مختص راستوں پر دکانداروں اور کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کو دکانوں پر اپنے نام جلی حروف میں لکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جس پر کانگریس رہنما پرینکا گاندھی نے ایکس پر لکھاکہ بھارتی آئین ہر شہری کو ضمانت دیتا ہے کہ اس کیساتھ ذات، مذہب، زبان یا کسی اور بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور بھارتی رکن پارلیمنت اسدالدین اویسی نے ایکس پر لکھا کہ ایسے اقدام کو ماضی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرستی اور ہٹلر کے جرمنی میں بائیکاٹ کہا جاتا تھا۔جبکہ معروف بھارتی نغمہ نگار جاوید اختر نے اس کا موازنہ نازی جرمنی سے کرتے ہوئے لکھا کہ کیا نازی جرمنی میں وہ صرف مخصوص دکانوں اور مکانات پر نشان نہیں بناتے تھے۔کانگریس رہنما پون کھیڑا نے ایکس پر لکھا بھارت میں بڑے گوشت کے ایکسپورٹر ہندو ہیں، کیا ان کے ذریعے فروخت کیا جانے والا گوشت دال چاول بن جاتا ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ نے ہندوئوں کی کنور یاترا کے دوران ریاست اتر پردیش کے دکانداروں کیلئے مالکان اور ملازمین کے نام خاص طورپر انکامذہب دکان کے باہر نمایاں طور پر لکھنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو خلافِ قانون قرار دیتے ہوئے اس پر عملدر امد روک دیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے نام اور مذہب کی تفصیلات اپنی دکانوں کے باہر آویزاں کرنے کا حکم دینے والی اتر پردیش، اترا کھنڈ اور مدھیہ پردیش کی ریاستی حکومتوں کو نوٹسز بھی جاری کئے ہیں ۔ جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ BJP اور اس کی حکومت بھارتی آئین کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ دکانوں ،ڈھابوں اور ہوٹل مالکان کو اپنے نام حروف تہجی کے طور پر ظاہر کرنے کا حکم دینے کا اقدام مسلم دکانداروں کی نشاندہی کرنے کے اشارے کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے تاکہ انہیں آسان ہدف بنایا جا سکے۔محبوبہ مفتی نے اس سلسلے میں کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی جانب سے انتباہات کا حوالہ دیا کہ بی جے پی دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں بھارتی آئین کو بدل دے گی، اور زور دے کر کہا کہ راہول گاندھی کی پیشین گوئیاں اب سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ محبوبہ مفتی نے متنبہ کیا کہ بی جے پی کی پالیسیاں شروع میں مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں لیکن آخر کار اس کا اثر دلتوں اور دیگر پسماندہ طبقات پر بھی پڑے گا۔ عام آدمی پارٹی کے رہنماسنجے سنگھ جو کہ بھارتی ایوان بالا راجیہ سبھا کے ممبر بھی ہیں نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجروال کو جیل میں قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ جس پر پورے بھارت میں ایک ہنگامہ برپا ہوا ہے۔
مودی کی زیرقیادت بھارتی حکومت نے سرکاری ملازمین پر ہندوتوا تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ RSSکارکن بننے اور اسکی سرگرمیوں میں شمولیت پر دہائیوں سے عائد پابندی بھی اٹھالی ہے ۔واضح رہے کہ بھار ت میں آر ایس ایس کو تین الگ الگ مواقع پرایک غیر قانونی گروپ قرار دیا گیا ہے،جبکہ1948میں ہندوتوا تنظیم کا ایک سابق رکن نتھو رام گوڈسے مہاتما گاندھی کو قتل بھی کر چکا ہے ۔کانگریس پارٹی نے ایک بیان میں مودی حکومت کے اس متنازعہ حکمنامے پرتمسخر اڑاتے ہوئے کہاکہ بھارتی بیوروکریسی آر ایس ایس میں شامل ہونے کے بعد اب نیکرز میں دفتر آسکتی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ مودی کابینہ میں شامل وزیر برائے مویشی، ڈیری اور فشریز گری راج سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ ان کے آباو اجداد نے 1947 میں تقسیم کے وقت تمام مسلمانوں کو پاکستان نہ بھیج کر ایک بہت بڑی غلطی کی تھی۔گری راج سنگھ نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے دوران شہرت حاصل کی تھی جب انہوں نے اعلان کیا تھا کہ جو لوگ مودی کو ووٹ نہیں دیتے وہ پاکستان چلے جائیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے سب سے بڑے ادارے دیوبند کو دہشت گردی کا سرچشمہ بھی قرار دیاہے۔یہ سارے واقعات ایک تسلسل کیساتھ ہورہے ہیں اور بھارتی مسلمانوں پر ایک بڑی یلغار کی سازش اور کوششیں ہورہی ہیں۔تاکہ یکبارگی انہیں گھیرکر ان کی نسلی تطہیر کا راستہ ہموار کیا جائے۔حالات و قرائن اسی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ مودی اور بی جے پی مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے ماحول تیار کررہے ہیں اور اس سلسلے میں جینو سائیڈ واچ کے سرابرہ پروفیسر گیگوری سٹنٹن پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ بھارت کیساتھ ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر بھی نسل کشی کے دہانے پر ہیں اور اگر دنیا نے اس کا نوٹس نہیں لیا تو بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی جائے گی۔کیا اسرائیل فلسطین میں نسل کشی نہیں کررہا ہے؟ اور 07 اکتوبر2023 سے لیکر آج تک اسرائیل چالیس ہزار فلسطینی مردو خواتین اور بچوں کا قتل،نوے ہزار شدید زخمی اور بیس ہزار کے قریب ملبے تلے دب چکے ہیں،جن کے زندہ ہونے کی اب کوئی امید باقی نہیں ہے۔چونکہ اسرائیل اور بھارت کا ایک دوسرے کیساتھ قریبی فوجی تعاون ہے اور بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں گزشتہ اسی برس سے آزما رہا ہے۔اگر فلسطین میں اسرائیلی نسل کشی پر دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے تو بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں بھی بھارتی بربریت پر عملا لاتعلق اور صرف نظر کیے ہوئے ہے ۔ایسے میں مودی اور بی جے پی کو کھل کھیلنے کا موقع میسر ہے اور وہ کسی بھی وقت بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں گجرات جیسے واقعات دوہرا سکتے ہیں،جب 2002 میں بطور وزیر اعلی گجرات مودی نے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا۔جس کے بعد اس پر امریکہ اور باقی ممالک میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری مودی اور بی جے پی کی ہندتوا دہشت گردی کو نکیل ڈالنے کیلئے فوری اقدامات کرے ،اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ۔کیونکہ مودی اور بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کی بھی پرواہ نہیں ہے جو اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کو دیوار کیساتھ لگانے سے انکار اور برات کا اعلان کرچکے ہیں۔مودی جانتا ہے کہ یہ اس کا آخری دور حکومت ہے لہذا لولی لنگڑی ہی صحیح اسی دور حکومت میں مسلمانوں کا کام تمام کیا جائے۔

Comments are closed.