مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی اسمبلی کیلئے ڈھونگ انتخابات کا پہلا مرحلہ گزشتہ روز 18 ستمبر کو دس لاکھ سے زائد بھارتی افواج کی موجودگی میں۔منعقد ہوا ہے۔بی جے پی کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی از سر نو حلقہ بندیوں کے پیچھے یہ مذموم مقصد کار فرما ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر ایک ہندو وزیر اعلی مسلط کیا جائے تاکہ 05اگست2019 کے اقدامات کی ریاستی اسمبلی سے توثیق کرائی جائے۔یہ انتخابات بی جے پی کی جانب سے جون 2018 میں محبوبہ مفتی کی حمایت واپس اور مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد منعقد ہورہے ہیں۔تب سے لیکر آج تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں بدستور گورنر راج نافذ ہے۔ بی جے پی جس سے رواں برس مئی میں بھارتی پارلیمانی انتخابات کے موقع پر مقبوضہ وادی کشمیر سے کوئی امیدوار بھی نہیں مل سکا ۔ریاستی اسمبلی انتخابات میں بھی اس کا حشر کچھ مختلف نہیں ہوگا ۔ مودی ‘ امیت شاہ اور راجناتھ سنگھ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کرانے کے قطعی طور پر حق میں نہیں تھے۔چونکہ بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 اور 35اے کے خاتمے کے سلسلے میں دائر کردہ عرضداشتوں پر سماعت کے دوران مودی حکومت کو 31ستمبر سے پہلے پہلے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی اسمبلی انتخابات کرانے کے احکامات صادر کیے تھے۔مقبوضہ وادی کشمیر میں بی جے پی کا وجود کچے دھاگے کی مانند ہے۔ خود بی جے پی اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر کے علاوہ صوبہ جموں کے مسلم اکثریتی اضلاع میں اس سے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان حالات میں بی جے پی نے اپنے چانکیائی حربوں کو بڑے منظم انداز میں بروئے کار لایا ۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی تین بڑی بھارت نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس،پی ڈی پی اور کانگریس نے بظاہر 05 اگست 2019 کے غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کو بنیاد بنا کر بی جے پی کیساتھ کسی بھی قسم کے اتحاد کو خارج از امکان قراردیا ۔ایسے میں بی جے پی نے انجینئر رشید جو دہلی کی تہاڑ جیل میں مقید تھے اور پھربھارتی پارلیمانی انتخابات میں نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ کو بڑے مارجن سے شکست دے چکے ہیں۔کل ہونے والے انتخابات کے پہلے مرحلے سے ایک ہفتہ قبل عبوری ضمانت پر رہا کیا ہے۔ان کی رہائی پر جہاں محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے وہیں تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے بھی اس سے بی جے پی کی مخصوص ٹائمنگ سے تعبیر کیا ہے۔بی جے پی کا ایک اور حربہ اور ہتھکنڈہ جو بڑا حیران کردینے والا ہے کہ خود کو جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کیساتھ وابستہ قرار دیئے جانے والے چند افراد نے انتخابات سے قبل انٹرویوز اور ویڈیو پیغامات میں انتخابی اچھل کود کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا اور پھر 08سے 09افراد پر مشتمل ایک گروہ غلام قادر لون اور غلام قادر وانی کی سربراہی میں سرگرم ہوگیا ،یہ گروہ خود کو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کا کلی طور پرتمام فیصلوں کا مختار کل گردانتا رہا ۔ مودی حکومت جس نے جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر پر فروری 2019 میں پابندی عائد کرکے اس کی جائز سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ جماعت کے تمام اثاثہ جات خاصکر جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ہزاروں فلاحی عام ٹرسٹ سکولوں کو پابندی کے زمرے میں لایا۔ ان میں زیر تعلیم تقریبا سوا لاکھ بچوں کو زیور تعلیم سے محروم کیا گیا جس کے نتیجے میں 25000 اساتذہ اور دوسرے افراد کو روزگار سے محروم ہونا پڑا۔گزشتہ ماہ ہی بھارتی حکومت کے قائم کردہ ٹربیونل نے جماعت اسلامی پر پابندی کو برقرار رکھا ،جماعت اسلامی کیساتھ وابستہ ہزاروں افراد کے علاوہ پوری قیادت بشمول امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحمید فیاض بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ایسے میں ایک مخصوص گروہ جس نے جماعت اسلامی کو ہائی جیک کیا ہے ،ان کیلئے بی جے پی کی جانب سے تمام تر سہولیات بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ان کے میڈیا انٹرویوز کیلئے خاص انتظامات کیے گئے ہیں ، یہ بات بھی چشم کشا ہے کہ ایک طرف جماعت اسلامی پر پابندی برقرار رکھی گئی تو وہیں دوسری جانب جماعت اسلامی کے نام پر بے معنی اچھل کود کرنے والوں کیلئے بی جے پی دیدہ و دل فرش راہ کیے ہے ۔نہ جانے بی جے پی نے ان افراد کو کون سی حشیش پلارکھی ہے کہ وہ جب بھی بولتے ہیں تو انسان کے پیروں سے زمین کھسکتی معلوم ہوتی ہے۔مثلا خود کو پینل کا سربراہ کہلانے والا غلام قادر وانی حال ہی ایک بھارتی صحافی “ڈیوڈ دیوداس “کیساتھ انٹرویو میں کہہ رہا ہے کہ جماعت اسلامی اس وقت کسی امیر کے بغیر کام کررہی ہے اور خود کو سربراہ قرار دینے کی بھونڈی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔جس پر کشمیری نوجوانوں نے اس سے سوشل میڈیا پر اڑے ہاتھوں لیا۔ غلام قادر وانی اپنے انٹرویوز میں بار بار سابق امیر جماعت غلام محمد بٹ کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ پینل انہی کی پالیسی یا نظریات کو لیکر آگے بڑھ رہا ہے۔پوچھا جاسکتا ہے کہ غلام محمد بٹ اور خود غلام قادر وانی جو جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں ‘کے دور امارت میں جتنے اقدامات کیے گئے کیا وہ آج کے دن میں اختیار کی گئی پالیسی کے مطابق غلط تھے؟دوسرا غلام قادر وانی جو دارالہدا راجوری و پونچھ کے چیئرمین رہ چکے ہیں جبکہ ادارے کے مہتم مولانا امیر محمد شمسی بھارتی NIA کی جانب سے قائم کردہ کیس میں جیل میں بند ہیں جبکہ آپ پر کوئی انچ نہیں آرہی ‘ جو ان خدشات کو جنم دیتے ہیں کہ آپ نے ساز باز کرکے خود کو بخشوادیا ہے۔بعدازاں ڈاکٹر عبدالحمید فیاض کے امیر جماعت منتخب ہونے کے بعد انہیں بھی NIA کی جانب سے اس کیس میں ملوث کیا گیا’ حالانکہ ان کا دارالہدا ادارے کیساتھ دور کا بھی تعلق نہیں رہا۔ایسے بہت سارے سوالات غلام قادر وانی کا پیچھا کرتے رہیں گے۔
جنوبی کشمیر کے کولگام سے ایک امیدوارسیار احمد ریشی سے جب صحافی نے منشور سے متعلق سوال پوچھا تو جواب تھا کہ یہاں جم ہونے چائیں جہاں خواتین خود کو جسمانی طور تندرست رکھ سکیں۔جبکہ غلام قادر لون کا بیٹا جو خود کو پی ایچ ڈاکٹر کہلاتا ہے ،اپنے علاقہ کپواڑہ میں ایک انتخابی میٹنگ میں یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ حال ہی میں جس کشمیری بچی نے بھارتی بہاری غیر مسلم سے شادی کی ، یہ اس کا حق ہے کہ وہ کون سا مذہب اختیار کرسکتی ہیں۔بھارتی آئین اس سے اجازت دیتا ہے اور کسی کو اس بچی پر انگلی اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ خود غلام قادر لون کا ایک انٹرویو سرینگر کے انگریزی روز نامہ Kashmir Despatch” “میں شائع ہو ا،جس میں موصوف فرما رہے ہیں کہ آرٹیکل 370 کبھی بحال نہیں ہوگا۔گوکہ اس مذکورہ شق کا مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مقبوضہ جموں وکشمیر کو ایک خصوصی حیثیت تو حاصل تھی ،جس کی موجودگی میں بھارتی شہری مقبوضہ جموں وکشمیر میں نہ تو کوئی جائیداد خرید سکتے تھے اور نہ ہی یہاں ان کیلئے شہریت کا حصول ممکن تھا۔05اگست2019 کے بعد لاکھوں ڈومیسائل کا اجرا عمل میں لایا جاچکا ہے۔
بی جے پی کے ان اقدامات کا مقصد مقبوضہ وادی کشمیر میں لوگوں کو بہکانے اور ووٹ بینک تقسیم کرنے کیلئے جہاں انجینئر رشید کو تہاڑ جیل سے ایک ڈیل کے تحت رہا کرنا تھا وہیں جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر کے نام پر مفاد پرستوں کا ایک ایسا ٹولہ بھی میدان میں اتارا گیا ہے جس کا جماعت اسلامی کیساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور اب تو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے باضابطہ طور پر اپنے لیٹر ہیڈ پر ایک تفصیلی پریس ریلیز جاری کرکے اس بھارت نواز ٹولے سے اعلان برات اور اس سے ملت فروش تک قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر نے اپنے تفصیلی پریس بیان میں واضح کیا ہے کہ وہ نام نہاد انتخابی عمل کا حصہ نہیں ہے ۔نام نہاد پینل بی جے پی اورآرایس ایس کے کہنے پر ڈرامہ کررہا ہے ،لہذا کشمیری عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس بات پر غورکریں کہ وہ کونسی خفیہ قوتیں ہیں جنہوں نے نام نہاد پینل اورانجینئر رشید جیسے سیاسی شعبدہ بازوں کی نامزدگی کو آسان بنایا ہے۔ بیان میں نام نہاد پینل کے جھانسے میں نہ آنے پر جماعت اسلامی کے کارکنوں کومبارکباددیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ یہ پینل بی جے پی اورآرایس ایس نے ریاست میں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے تشکیل دیا ہے۔
بلاشبہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے اس پریس بیان کے بعد بھارتی انتخابات میں شریک یہ افراد جماعت کا نام استعمال کرنے کا اخلاقی جواز کھوچکے ہیں۔اس مذکورہ پریس بیان نے جہاں جماعت اسلامی کو ایک بڑے بحران سے بچالیا ہے وہیں ان لاکھوں قربانیوں کی لاج بھی رکھی گئی جو خود جماعت کیساتھ وابستہ ہزاروں افراد اور جماعت کی دعوت کے نتیجے میں کشمیری نوجوان بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے دے چکے ہیں۔جماعت اسلامی کی سینکڑوں جائیدادیں بھارتی حکومت اپنی تحویل میں لے چکی ہے۔حالات کا تمام تر جبراپنی جگہ مگر جماعت نے اپنے نصب العین سے سرمو انحراف نہیں کیا ۔جماعت کیساتھ وابستہ اراکین کے میوہ باغات تک کاٹ ڈالے گئے ،ان کے لخت جگر بھارتی عقوبت خانوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں ،جن میں سید صلاح الدین احمد کے دو فرزند بھی شامل ہیں ،مگرجماعت نے ان بھارتی حربوں کے سامنے ہمیشہ سرتسلیم خم کرنے سے انکار کیا۔ جماعت کی شوری کی اکثریت نے بھارت کی گود میں بیٹھنے والے پینل سے خود کو لاتعلق رکھا ،جس نے مذکورہ پینل کو بوکھلاہٹ سے دوچار کیا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔جہاں پوری آزادی پسند قیادت جس میں خواتین بھی شامل ہیں، بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں ،وہیں ماضی قریب تک کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ رہنے والے چند لوگ بھی اب جمہوریت کی نیلم پری کے گن گارہے ہیں جبکہ طرفہ تماشا یہ ہے اس وقت بھی خود کو کل جماعتی کانفرنس کیساتھ وابستہ جتلانے والے رہنمائوں کے بیٹے بھارتی انتخابات میں پورے لائو لشکر کیساتھ شریک ہیں۔ماضی میں کل جماعتی حریت کانفرنس کو اسی بنیاد پر دولخت بھی ہونا پڑا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ریاستی اسمبلی انتخابات ایک ٹیسٹ کیس ہیں اور اس مشق کے بعد جماعت اسلامی اور کل جماعتی حریت کانفرنس کو تطہیری عمل سے گزارنا ناگزیر ہے۔اب تو سجاد لون بھی کہہ رہا ہے کہ بھارتی حکومت یہاں 1987 دوبارہ دوہرانا چاہتی ہے ۔ جس کے پہلے جیسے تباہ کن نتائج ہی برآمد ہونگے۔
Comments are closed.