امیگریشن چھاپے، مظاہرے اور نیشنل گارڈز: امریکہ میں کشیدگی بڑھ گئی

واشنگٹن / لاس اینجلس: امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے لاس اینجلس میں امیگریشن چھاپوں اور اس کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے پیش نظر شہر میں دو ہزار نیشنل گارڈ فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے خبردار کیا ہے کہ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو پینٹاگون ایکٹیو ڈیوٹی فوجیوں کو بھی تعینات کر سکتا ہے، جن میں کیمپ پینڈلٹن میں موجود امریکی میرینز ’ہائی الرٹ‘ پر رکھے گئے ہیں۔

ہفتے کے روز پیرا ماؤنٹ علاقے میں ہونے والے ایک مظاہرے میں تقریباً 100 افراد شریک ہوئے، جن کی وفاقی ایجنٹس سے جھڑپیں ہوئیں۔ بعض مظاہرین میکسیکن پرچم اٹھائے ہوئے تھے جبکہ کئی نے ماسک پہن رکھے تھے۔ اسی روز شہر کے وسطی حصے میں ایک اور مظاہرے میں 60 کے قریب افراد شریک تھے جو مختلف نعرے لگا رہے تھے۔

وائٹ ہاؤس کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ سابق صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت نیشنل گارڈز کو “اس قانون شکنی کے خاتمے کے لیے تعینات کیا جا رہا ہے جسے پنپنے دیا گیا۔” ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر اہلکار اور بارڈر امور کے مشیر ٹام ہو مین نے “فاکس نیوز” سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نیشنل گارڈ فوجی ہفتے کی شام لاس اینجلس پہنچ چکے ہیں۔

کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس فیصلے کو “جان بوجھ کر اشتعال انگیزی” قرار دیتے ہوئے تنقید کی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کا مقصد صرف تماشا ہے۔ انہوں نے مظاہرین سے پرامن رہنے اور تشدد سے گریز کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے ہی متحرک ہیں، نیشنل گارڈز کی ضرورت نہیں۔

دوسری جانب، سابق صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر کہا ہے کہ اگر گورنر نیوسم اور لاس اینجلس کی میئر کیرن باس حالات پر قابو نہیں پا سکے تو وفاقی حکومت خود مداخلت کرے گی۔ انہوں نے کہا، “ہم فسادات اور لوٹ مار کو اس طریقے سے روکیں گے، جس طرح ہونا چاہیے!”

یہ صورتحال امریکہ میں امیگریشن پالیسی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات، اور ریاستی و وفاقی حکومتوں کے درمیان تناؤ کو مزید اجاگر کرتی ہے۔

Comments are closed.