امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے پر برہمی کا اظہار کیا ہے جس میں کم از کم 20 افراد جاں بحق ہوئے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس حملے کے بارے میں پہلے سے علم نہیں تھا۔ انہوں نے کہا:
“میں اس سے خوش نہیں ہوں۔ میں ایسے حملے نہیں چاہتا۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ خوف و دہشت ختم کرنا ہو گا۔”
اسرائیل کا موقف اور نیتن یاہو کا بیان
اسرائیل نے پیر کو غزہ کے جنوبی علاقے میں واقع الناصر ہسپتال پر حملہ کیا۔
وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ:
اسرائیل کو اس “المناک حادثے” پر گہرا افسوس ہے۔
اسرائیل صحافیوں اور طبی عملے کے کام کی قدر کرتا ہے۔
اسرائیل کی جنگ حماس کے خلاف ہے، نہ کہ میڈیا یا طبی شعبے کے خلاف۔
صحافیوں کی ہلاکت
ہسپتال پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں پانچ صحافی بھی شامل تھے جو رائٹرز، ایسوسی ایٹڈ پریس، الجزیرہ اور دیگر اداروں کے لیے کام کر رہے تھے۔
اسرائیلی فوج نے ہسپتال کے علاقے پر حملے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ چیف آف جنرل اسٹاف نے فوری انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔
صحافتی اداروں کا شدید ردعمل
فلسطینی صحافیوں کی سنڈیکیٹ نے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ:
آزاد میڈیا کے خلاف کھلی جنگ ہے۔
مقصد صحافیوں کو خوفزدہ کرنا اور ان کے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی روکنا ہے۔
اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس کے جرائم دنیا کے سامنے بے نقاب ہوں۔
صحافیوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار
سنڈیکیٹ کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں 240 سے زائد فلسطینی صحافی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ) کے مطابق غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے اب تک 197 صحافی و میڈیا ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 189 فلسطینی شامل ہیں۔
CPJ نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے صحافیوں پر مسلسل غیر قانونی حملوں پر اسے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
نتیجہ
الناصر ہسپتال پر اسرائیلی حملے نے ایک بار پھر عالمی سطح پر شدید ردعمل پیدا کیا ہے۔ امریکی صدر کی برہمی، اسرائیل کی وضاحت، اور صحافتی تنظیموں کے بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غزہ میں میڈیا ورکرز سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں۔
Comments are closed.