پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ چار روز سے جاری پُر تشدد مظاہروں نے خطرناک صورتحال اختیار کر لی ہے، جس کے نتیجے میں اب تک 8 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 3 پولیس افسران اور 5 شہری شامل ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات دو سکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ جھڑپوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور امن و امان کی صورتحال کشیدہ ہے۔
مظفرآباد میں حالات کشیدہ، انٹرنیٹ اور فون سروس معطل
احتجاج کا آغاز گزشتہ پیر کو ہوا جب ہزاروں مظاہرین مختلف شہروں سے دارالحکومت مظفرآباد پہنچے۔ مظاہروں کے پھیلاؤ کے بعد حکام نے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز بند کر دیں تاکہ حالات کو قابو میں رکھا جا سکے۔ بدھ کو سامنے آنے والی تصاویر میں پولیس کو ایک پل پر مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ کرتے دیکھا گیا۔ مظاہرین مہنگائی، بجلی بلوں اور بنیادی سہولیات کی کمی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
وزیراعظم کا نوٹس، اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم
وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نوٹس لیتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو اس معاملے کی تحقیقات کرے گی اور مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکمتِ عملی تیار کرے گی۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ کمیٹی میں سینیئر سیاستدان اور حکومتی نمائندے شامل ہوں گے تاکہ حالات کو جلد از جلد معمول پر لایا جا سکے۔
مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں جاری
ذرائع کے مطابق کئی علاقوں میں پولیس اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔ پولیس نے بعض علاقوں میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ مظاہرین نے بعض مقامات پر پتھراؤ کیا۔ اس دوران درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
عوامی مطالبات اور حکومت کا ردعمل
مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ بجلی، گندم اور دیگر اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر مہنگائی میں کمی، بنیادی سہولیات کی فراہمی، اور پولیس تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔
امن و امان کی بحالی کے لیے حکومتی کوششیں
وزیراعظم شہباز شریف نے تمام فریقین سے تحمل اور مذاکرات کی اپیل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوامی مسائل کا حل تشدد نہیں بلکہ بات چیت سے ممکن ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت مظاہرین کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔
Comments are closed.