خبر ہے کہ بعض لوگوں نے دھرتی کو آگ لگا دی ، وہ بھی سرے بازار، چوک میں، کیا ماجرہ ہے کیا مطالبہ ہے؟ ہم جو کہیں وہ ہی سچ ہے اسی کو مانوں ۔ بلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ہی سچے ہیں ۔ آپ ہی کی ہر بات حق ہے، آپ ہی کے الفاظ کو موتی کی لڑی میں پرویا جائے ۔
دعوی ہے کہ ہم قوم پرست ہیں ۔ قوم پرستی کیا ہے قومیت لفظ قوم سے اخذ ہے ارسطو نے اس کی بڑی خوبصورت تعریف کی لیکن آج اس کو جانے دیتے ہیں، لارڈ برائس کے الفاظ میں ”قومیت ایک ایسی آبادی ہے جسے بہت سے بندھنوں مثلاََ زبان، ادب، تصورات، روایات اور ضابطوں میں اس طرح باندھ کر رکھنا کہ ان میں ایک مربوط اکائی ہونے اور دیگر آبادیوں سے جو اسی قسم کے بندھنوں میں بندھی ہوئی ہوں، جدا ہونے کا احساس پایا جاتا ہو۔“ اب بتائیں اس تعریف میں جموں و کشمیر ایک قوم کہاں کھڑی ہے ۔ اگر یہ تعریف درست مان لی جائے تو جموں کشمیر ایک قوم نہیں اقوام کا مجموعہ ہے، پیر پہنجال اس تعریف میں ایک قوم ہے۔ وادی چناب الگ قوم ہے ۔ وادی کشمیر میں رہنے والے لوگ کشمیری ہیں جو قبل مسیح کی تاریخ ثقافت اور زبان رکھتے ہیں ۔ بے شک راج ترنگنی میں انہی کو کشمیری قوم کی تعریف میں لکھا گیا ۔ لداخ کے لوگ اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں ۔ رہی بات گلگت کی تو ان کا بھی یہی دعوی ہے کہ وہ بھی قبل مسیح سے اپنی الک شناخت رکھتے ہیں اور بلتی ان میں ایک دوسری قوم ہے ۔ تازہ صورت حال میں گلگت بلتستان کے دوستوں کا کہنا ہے کہ جموں کے ڈوگرہ نے کشمیر کو تو انگریزوں سے خرید کر اپنی راج دہانی کو توسیع دی مگر ہماری ریاستوں پر بزور طاقت قبضہ کیا اور جب سے اس نے قبضہ کیا اس دن سے ہم ڈوگرہ سے آزادی کی جدوجہد کر رہے تھے۔ بلآخر 1947 میں تقسیم ہندوستان کے وقت چوں کہ ڈوگرہ جموں کمزور ہو گیا تھا ہم نے زور بازو اپنی زمین کو دوبارہ حاصل کیا ۔ یکم نومبر 1947، کو ہم اسی پوزیشن میں آ چکے جب ڈوگرہ نے ہماری ریاست پر قبضہ کیا تھا ۔ بعد ازیں ہمارا متفقہ فیصلہ تھا کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر اور ہماری آزادی کی تحریک میں واضح فرق ہے ۔کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اس لئے کہ انڈیا نے ان کی ریاست پر 27 اکتوبر 1947 میں قبضہ کیا تھا ۔
ہم نے ڈوگرہ سے آزادی حاصل کی اسی نے ہماری ریاستوں پر قبضہ کیا تھا بھارت سے ہمارا لینا دینا نہیں ہے ۔لہذا گلگت بلتستان اور کشمیر کی آزادی کو ایک پیرائے میں نہیں رکھا جا سکتا ۔گلگتیوں کے ان دلائل پر کشمیر کے عوام نے کبھی اعتراض بھی نہیں کیا ۔ اب رہا سوال آزاد کشمیر کے عوام اور وہاں کے قوم پرستوں کا، جو کشمیر کو خود مختار تو بنا رہے ہیں مگر زمین کے اصل مالکوں سے نہیں پوچھتے کہ آپ کی مرضی کیا ہے ۔
سری نگر کے گلی کوچہ میں نعرے لگ رہے ہیں ” ہم ہیں پاکستانی، پاکستان یمارا ہے ” راولاکوٹ میں نعرے لگ رہے ہیں کشمیر بنے کا خود مختار، برہان وانی نے پیشانی پر پٹی باندھ رکھی ہے کلمہ حق کی ۔ راولاکوٹ میں سرخ کپڑے لے کر لوگ گھوم رہے ہیں، سویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے آرمی کی وردی کا رنگ تبدیل کر لیا ۔ البتہ ترکی کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہے لیکن طعیب اردگان تو امت واحدہ، کی خلافت کی بحالی کے راستے پر گامزن ہے ۔ یہاں تو سرخ کپڑے کے ساتھ امت کے اہم ستون پاکستان اور پاکستان کی آرمی، جو امت کی بہترین آرمی ہے کو گالیاں دی جا رہی ہے ۔ کیا قوم پرستی یہ ہے کہ پاکستان کو گالیاں دی جائے ۔ یہ کام کرنے کے لئے را نے پاکستان میں بہت لوگوں پر سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ ہمارے لوگوں کو کودنے کی کیا ضرورت آن پڑی ۔
چلو مانتے ہیں کہ کشمیر کو خود مختار ہونا چاہئے، یہ بات تو ہم بھی کہتے ہیں کہ آج کی صورت حال میں کشمیر کے صرف دو حل ہیں تقسیم یا خود مختار، اگر ڈوگرہ کی ریاست کے اندر رہنے والوں کو ایک قوم بھی لیں تو قوم پرستی کی بات کرنا بری بات تو نہیں اور نہ کسی کو اس پر اعتراض ہے، چوہدری غلام عباس ، شیخ عبداللہ پر کسی اعتراض نہیں کیا تو آپ پر کون اور کیوں کر گا کوئی کر بھی نہیں سکتا۔ کشمیر کا سب سے بڑا قوم پرست تو کے ایچ خورشید تھا ۔ ان کا پاکستان میں بہت احترام رہا، انتقال پر قومی پرچم سرنگوں کیا گیا، کشمیر کا قوم پرست تو مقبول بٹ تھا ۔ جب تنگی ہوئی پاکستان میں پناہ لی ان کی صاحبزادی آج بھی کراچی یونیورسٹی کے کیمپس میں ہے۔ بٹ صاحب کی شہادت پر صدر پاکستان نے جو فوج کا سربراہ بھی تھا ان کو کشمیریوں کا ہیرو کہا۔ کشمیر کا قوم پرست تو اماں اللہ خان تھا۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ذمہ دار ان سے مشاورت کرتے تھے.
کشمیر کا آج سب سے بڑا قوم پرست یاسین ملک ہے ۔ اس ناچیز کی آنکھوں نے قائد اعظم کے مزار پر سجدہ کرتے دیکھا ۔وہاں میر واعظ عمر فاروق، لوں سمیت حریت کے 11 رہنماء تھے مگر سجدہ اکیلے یاسین ملک ہی نے کیا ۔ ان لیڈروں نے تو کبھی پاکستان اور پاکستان کی آرمی کو گالیاں اور لعن طعن نہیں کی ۔یہ اب کون سے قوم پرست آگئے جو ہیں تو چند مگر تشدد کر کے اپنی آواز کو بلند کرنا چاتے ہیں ۔یہ تو وہی فلسفہ ہے کہ ” بدنام ہوں گے کیا نام نہ ہو گا۔”
اگر قوم پرست ہو تو بہت اچھی بات ہے اپنے اندر سیاسی تدبر پیدا کرو مذاکرات کے ٹیبل پر اپنی بات منوانے کی صلاحیت پیدا کرو، اخلاق و کردار کی بلندیوں تک پہنچوں، مسئلہ کشمیر سے محبت ہے تو گلگت جادو وہاں کے عوام اور وہاں کے نوجوان کو قائل کرو اگر وہ آپ کی سنتے اور مانتے ہیں، سری نگر کے عوام کو سمجھاو کہ وہ جموں، لداخ، گلگت بلتستان ، پیر پہنجال کے عوام کو اپنی اکائی تسلیم کریں، قوم پرست ہو تو کے ایچ خورشید کے عدم تشدد کے فلسفہ کو سمجھو اور آو مل کر آواز بلند کرتے ہیں کہ جو بات ہم کہتے ہیں کشمیریوں کے مفاد اور استحکام پاکستان کے لئے ہے۔ پاکستان ریاست سے ڈائیلاگ کرتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے ۔ کشمیر نعرے بازی سے نہیں بہترین سفارت کاری سے آزاد ہو گا سری نگر کے عوام نے اپنا کام کر لیا ہم اپنا کام کریں ۔ افراتفری اور دھنگا مشتی سے کچھ نہیں ہو گا۔
راولاکوٹ میں دھرتی کو کیوں جلاتے ہو، دھرتی تو تماری ہے، میری ہے ہم سب کی ہے ۔یہ تو امانت ہے ہمارے پاس اگلی نسل کو دینی ہے صحیح سلامت اس کو مت جالاو دھرتی تو آخر دھرتی ہے۔ جلے گی تو بھسم ہو جائے گی، پھر آپ کی بھی داستان نہیں رہے گی داستانوں میں ۔
Comments are closed.