ایسا علاقہ جہاں سکول نہ ہونے کے باوجود شرح خواندگی 100 فیصد

تحریر: دانش ارشاد

’’پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے علاقے میں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم میں کبھی فرق نہیں کیا گیا اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا جس طرح لڑکوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کیا جاتا رہا‘‘۔

یہ الفاظ اس علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت کے ہیں جہاں سکول نہ ہونے کے باوجود شرح خواندگی 100 فیصد ہے اور تقریبا ساڑھے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گائوں کے ہر گھر میں اوسطا ایک سے زائد ایم فل ڈگری کے حامل افراد موجود ہیں۔

آزاد جموں کشمیر تعمیر وترقی کے اعتبار سے پسماندہ ضرور ہے تاہم تعلیمی اعتبار سے پاکستان میں اول درجے پر ہے اور آزاد جموں کشمیر کے پسماندہ ترین ضلع ”حویلی” میں ایک ایسا گائوں موجود ہے جو تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے دنیا کے تعلیم یافتہ علاقوں پر سبقت لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس گائوں کو ”جبی سیداں” کے نام سے جانا جاتا ہے۔

آج کے فیچر میں جبی سیداں کا ذکر ہے جو آزاد جموں کشمیر کے دور دراز علاقے ضلع حویلی میں واقع ہے۔ بے پناہ خوبصورتی کے حامل ضلع حویلی جسے فارورڈ کہوٹہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایسا علاقہ ہے جہاں زندگی خوف کے سائے میں پروان چڑھتی ہے۔ آزاد جموں کشمیر کے دس اضلاع میں یہ سرحدی علاقہ ہے جو پورا ضلع جنگ بندی حدود (سیز فائر لائن) کے پانچ کلومیٹر کے اندر موجود ہے اورتین اطراف سے خونی لکیر (سیز فائر لائن)  میں گھرا ہوا ہے جس کے باعث آئے روز تین اطراف سے بمباری ہوتی رہتی ہے۔ یہاں زندگی اس اعتبار سے بھی کافی مشکل ہے کہ موسم سرما میں چار ماہ یہاں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہی رہتا ہے۔

سیز فائر لائن کی کشیدہ صورت حال اور جدید سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب یہاں بسنے والوں کو آئے روز دشواریوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اس ضلع میں ایک گائوں ایسا بھی ہے جس کا شمار پاکستان کے چند نمایاں اور گنے چنے گائوں میں کیا جاتا ہے۔ دل چسپ اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ اس گائوں میں کوئی ہائی سکول ہے نہ ہی مڈل سکول، بوائز اور گرلز کے لیے کسی زمانے میں ایک ایک پرائمری سکول ہوتا تھا لیکن امتداد زمانہ دیکھئے اب یہ دونوں سرکاری سکول بھی عملا بند ہو چکے ہیں۔(اس علاقے میںہائی سکول تقریبا پانچ کلومیٹر دور دوسرے گائوں جس کا نام سولی ہے میں موجود ہے)۔ اس سب کے باوجود اس گائوں کا بچہ بچہ نہ صرف زیورتعلیم سے آراستہ ہے بلکہ گائوں کے ہزاروں افراد تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہیں اورآزاد جموں و کشمیر کے اعلی سرکاری عہدوں پر بھی فائز نظر آتے ہیں۔

اس گائوں کو پاکستان بھر میں دو اعتبار سے منفرد مقام حاصل ہے۔ ایک تو یہاں کا تعلیمی تناسب 100فی صد ہے اور دوسرا یہ کہ تعلیم کی بلند شرح کے ساتھ جرائم کی شرح صفر ہے۔ ساڑھے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گائوں میںمساجد کو گائوں کی خواندگی میں مرکزی مقام حاصل ہے۔ اس گائوں میں چھ مساجد اور ایک مدرسہ موجود ہیں۔ ایک جامعہ مسجد ہے جو کہ ضلع بھر کی ابتدائی جامعہ مساجد میں سے ہے ۔اکلوتے مدرسے سے سینکڑوں قاری ، حفاظ فارغ التحصیل ہیںجو ضلع بھر کی مساجد اور تعلیمی اداروں سے منسلک ہو کر قرآن کی روشنی سے عوام الناس کو بہرہ مند کر رہے ہیں۔

گائوں میں دلکشی اور خوبصورتی ایک اہم وجہ یہاں کے پر بسنے والے خواتین و حضرات اعلی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ کھیتی باڑی سے بھی منسلک رہتے ہیں، گریڈ 19اور گریڈ 20کے افسران تک گھر کے کام کاج خود کرتے ہیں۔ پھل دار درختوں اور سبزیوں کی افرائش کے علاوہ اپنے اپنے گھروں میں کم عمر بچے کو ناظرہ قرآن بھی خود پڑھاتے ہیں۔ اس علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا تو گائوں کے لوگ سادہ طرز زندگی گزارنے والے عام سے لوگ محسوس ہوئے، جن سے مل کر آپ کو اپنائیت کا احساس ہوا۔

دنیا بھر میں عام طور پر اور تیسری دنیا کے غریب ممالک میں خاص طور پر یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ خواتین عموما تعلیمی اور ملازمتوں کے میدان میں مردوں سے بہت پیچھے رہ جاتی ہیں ، لیکن اس گائوں میں خواتین بھی تعلیمی اور ملازمتوں کے میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ہر گھر میں ایم اے، بی ایڈ ، ایم فل اور ایم ایس سی کے مشکل مضامین کی ڈگری ہولڈر خواتین بھی مل جائیں گی۔ مرد و خواتین کی اکثریت ملازمت پیشہ ہے اور ان ملازمین میں زیادہ تر شعبہ تعلیم سے منسلک ہیں۔

قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اس گائوں میں تمام گھرانوں کا تعلق سادات خاندان کے بخاری سلسلے سے ہے۔ سادات کے اس خاندان کی ایک شاخ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سری نگر اور کریڑی کے مقام پر بھی آباد ہے۔ وہاں بھی یہ خاندان تعلیمی، صحافتی اور سیاسی میدان میں نمایاں نظر آتا ہے۔ جبی سیداں اور ملحقہ علاقے کی محرومیوں کا ذکر کریں تو آدھے سے زیادہ گائوں کو پختہ سڑک کی سہولت میسر نہیں ہے۔ چار کلومیٹر لمبی پختہ سٹرک گائوں کو دو اطراف سے باہم ملاتے ہوئی دائرے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔یہ دلچسپ بات ہے کہ اس سڑک کا آدھا حصہ جوکہ تقریبا دو کلومیٹر بنتا ہے یہاں کی مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کر رکھا ہے ۔

اس انوکھے اور منفرد گائوں کے تعلیم کی شرح بلند ہونے اور درپیش مسائل کے بارے میں جاننے کے لئے اس گائوں سے تعلق رکھنے والے  چند نمایاں افراد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو84سالہ بزرگ سید زین العابدین بخاری (جویہاں کے معمر افراد میں شامل ہیں اور محکمہ تعلیم سے انیسویں گریڈ میں ریٹائرڈ ہوئے۔سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر ممتاز حسین راٹھور سمیت آزاد کشمیر کی اعلی ترین بیوروکریسی کے کئی اہم نام ان کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ ان کے گھر میں پانچ افراد نے مختلف شعبہ جات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کر رکھی ہیں۔) نے بتایا کہ گائوں میں تعلیمی رجحان کا تعلق ہمارے آبا و اجداد کا فارسی اور عربی سے شغف سے بھی جا ملتا ہے۔ گائوں کی ملازمت پیشہ آبادی میں سے اکثریت کا تعلق شعبہ تعلیم سے رہا ہے ۔ علم و ادب سے صدیوں پرانا تعلق یہاں کہ آبادی کو ممتاز کرتا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوائل عمری میں لوگ ننگے پائوں پیدل سفر کرتے دیکھے ہیں، ہر چیز میں جدت نے کافی کچھ بدل کے رکھ دیا ہے۔عہدِ جدید میں چھوٹے چھوٹے گائوں میں وسائل اور ملازمتوں کی کمی کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوان شہروں کا رخ کررہے ہیں تاہم اس سب کے باوجود ان کا تعلق گائوں سے جڑا رہتا ہے۔یہی اس گائوں کے علمی میدان میں آگے بڑھنے کا راز بھی یہی ہے۔ موجودہ زمانے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب بطور قوم ہمیں رسمی تعلیم سے نکل کر فنی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے ساتھ تعلق جوڑے رکھنا حقیقی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔

اسی گائوں سے تعلق رکھنے والے سید علی رضا بخاری آزادجموںکشمیر کے وزیر مذہبی امور ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ تقسیم ہندسے پہلے یہاں کے لوگ تعلیم کیلئے پونچھ شہر میں جاتے تھے اورتعلیم حاصل کرتے تھے ۔ پونچھ کا وہ شہر آج بھارت کے زیر قبضہ ہے یہاں سے کافی دور تھا ، سفر مشکل ہوتا تھا،وسائل کی بھی کمی ہوتی تھی لیکن گائوں کی بڑی آبادی نے وہاں جا کر اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھا اور پھر انہوں نے اپنے علاقے کے لوگوں کو تعلیم دی ۔ یہ چیز ایک نسل تک محدود نہیں رہی بلکہ بعد کی نسلوں کو بھی تعلیم دلوائی اس تسلسل سے آج یہاں کا تعلیمی تناسب سو فیصد ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ آج جبی سیداں کے لوگ دوسری جگہوں پر جاکر آباد ہوتے ہیں تو وہاں بھی اس روایت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور علم پھیلا رہے ہیں۔ علی رضا بخاری کا کہنا ہے کہ جہاں تک تعمیر و ترقی اور وسائل کا سوال ہے تو میری خواہش ہے کہ پورے ضلع میں پختہ سڑکیں ہر گائوں تک پہنچیں اور عوام الناس کو سفر کی آسان سہولیات میسر ہوں۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہونے کے اجتماعی طور پر مجرم ضلع حویلی کے تمام عوامی نمائندے ہیں۔ ہم سب خود کو تعمیر و ترقی کے ہیرو کہتے ہیں لیکن ہم نے اپنے علاقے کیلئے کچھ نہیں کیا۔ ہمیں ملکر علاقے کی بہتری کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔

چئیرمین ا زاد جموں و کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ عابد حسین بخاری کا تعلق بھی اسی گائوں سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ ہمارے آبا کا تعلق علمی و ادبی گھرانے سے ہیں اور علم سے محبت اور اس کی اہمیت سے آگاہی کا جذبہ ہمیں وراثت میں ملا۔ ہمارے اساتذہ میں کئی نابغہ روزگار افراد نے عشروں سے نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔دراصل ہمارے اساتذہ کا اہم ترین کردار نئی نسل میں شعور پیدا کرنا تھا۔اب تو علمی و ادبی ترقی کا زمانہ ہے اور تعلیمی میدان میں نمایاں بہتری آئی ہے لیکن ایک وقت تھا کہ ایسا نہیں تھا۔اس دور میں ضلع بھر میں علمی ماحول پیدا کرنے میں ہمارے گائوں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ نے اہم کردار ادا کیا۔

 سید ریاض حیدر بخاری آزاد کشمیر کے محکمہ پولیس میں اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے آبا و اجداد کا رجحان تعلیم اور ادب کی طرف زیادہ رجحان رہا اس وجہ سے تعلیم سے رغبت ہماری نسلوں کو وراثت میں ملی۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سرکاری نوکریوں کے حصول ضروری سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا متبادل کوئی نہیں تھا اس لئے بھی لوگ تعلیم سے وابستہ رہے ۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ پونچھ شہر اپنے دور میں علم اور ادب کا گہوارا تھا وہیں سے چراغ حسن حسرت، پریم ناتھ بزاز اور کرشن چندر جیسے ادیب سامنے آئے اور وہاں سرکاری اور غیرسرکاری سکول بھی تھے جہاں ہمارے آباو اجداد تعلیم کیلئے جاتے تھے یوں ایک کلچر بنا کہ اور انہوں نے اپنی نسلوں کو بلا امتیاز تعلیم دلوائی۔

 پھر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی تعلیم کے حصول میں مقابلے کی فضا پیدا ہوتی رہی جس سے اس چیز کو زیادہ مہمیز ملی اور لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم کے حصول کی کوشش کرتے رہے۔ علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ہجرت کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومتوں کے پاس منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ ذرائع مواصلات انتہائی کمزور ہے، تعلیمی معیار نیچے جا رہا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں نے ان علاقوں سے ہجرت کرنا شروع کر دی ہے۔ وہاں بجلی نہیں ہوتی، ٹیلی فون (لینڈ لائن)اکثر خراب رہتی ہے اور ایک ہوا کا جھونکا موبائل فون سروس کو ختم کر دیتا ہے۔

صحت کی سہولیات موجود نہیں۔ ایک عام بیماری کے علاج کیلئے دوسرے اضلاع کا رخ کرنا پڑتا ہے ایسے میں وہاں کوئی جا کر رکے گاتو کیسے؟حکومت کو عوام میں اعتبار پیدا کرنا چاہیے اور وہاں سے ہجرت کی وجوہات کو دیکھ کر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اس چیز کو سمجھنا چاہیے کہ دیہی علاقوں کو کیسے سہولیات دی جائیں۔ کیونکہ اگر ایسے ہی لوگ شہروں کی طرف ہجرت کرتے رہے تو کل حکومت کیلئے ان شہروں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا اس لئے دیہی علاقوں کو سہولیات دینے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور کمیونیکیشن ، صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔

سیداعجاز حیدر مختلف چینلز میں بطور اینکر پرسن منسلک رہ چکے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میرا مشاہدہ ہے کہ گائوں کے بہت سے لوگ تعلیم کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔پاکستان میں لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر بحث ہوتی ہے لیکن ہمارے علاقے میں لڑکے اور لڑکی کی تعلیم میں کبھی فرق نہیں کیا گیا اور لڑکیوں کی تعلیم کیلئے بھی اسی طرح اہتمام کیا گیا جس طرح لڑکوں کی تعلیم کیلئے اہتمام کیا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ جبی سیداں کے لوگ سیاست سے دور رہے اور سرکاری نوکریوں کے حصول پر توجہ رہی تو نوکریوں کے حصول کیلئے تعلیم ضروری تھی اس لئے بھی تعلیم کو فوقیت حاصل رہی۔ اس کے علاوہ یہاں کے لوگ شاعری  بھی کرتے تھے ، ادب سے خاصا لگا تھا جس کے باعث پڑھنے لکھنے کا رجحان بڑھتا گیا۔

ڈاکٹر مسعود بخاری ان دنوں آزادکشمیر کے سب سے بڑے ہسپتال عباس انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز میں بطور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بطورطالب علم ان رہنما اصولوں پر بات کی جن کو مدنظر رکھ کر نوجوان اپنے کیرئیر کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کامیابی ایک مکمل پیکج ہوتی ہے ۔  اس کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے۔ جو سیکھتا ہے وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو سیکھنا چھوڑ دیتا ہے وہ کامیابی کی منزلوں سے دور ہوتا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی کامیابی مستقل اور دائمی نہیں ہوتی۔ انسان جہاں رک جاتا ہے ، ہمت ہار دیتا ہے وہاں سے اس کے زوال کے سفر کا آغاز ہو جاتا ہے۔  آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ  مثبت سوچیں ، خود کو ہمیشہ متحرک رکھیں۔ خود اعتمادی اور خود پر یقین کامیابی حاصل کرنے کے لیے لازمی ہے۔  آگے بڑھتے جائیں، خود کو ہر وقت سیکھنے کے مراحل میں رکھیں۔میری نظر میں ہمارے گاؤں کے لوگوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ ان کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

Activity - Insert animated GIF to HTML

دانش ارشاد سے رابطہ کیلئے ان کا موبائل 00923335363120, 00923015362575 اور ای میل ایڈریس danishirshad89@gmail.com ہے۔

 

Comments are closed.