آج کل اخباروں،اور دیگر ذرائع ابلاغ میں چودھویں آئینی ترامیم کا بہت تذکرہ ہے اور آج کے اخبار میں وزیراعظم آزاد کشمیر کی تقریر کو بہت دبنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ میں یہ ساری صورتحال دیکھ کر بہت سارے اہل علم حضرات اور دیگر سیاسی اور سماجی کارکنان کی فہم اور ادراک سے بھی ذاتی طور پر مایوس ہوا ہوں ۔جو بعض قومی معاملات کو علمی وفکری نظر سے دیکھنے کے بجائے کھیل تماشےاور نا سمجھی،جلد بازی اور عجلت کو جرآت، دلیری اور دبنگ پالیسی سے تعبیر کرتے ہیں۔
میں کسی طور پہ عقل کل کا دعویدار نہیں اور نہ ہی اپنی بات کو بہر طور درست سمجھتے ہوے دوسرے پہ مسلط کرنے کا حق رکھتا ہوں۔البتہ سیاست اور قانون کے طالب علم کی حثیت سے اپنی ایک رائے کے اظہار کا حق ضرور رکھتا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی چودہویں ترمیم کا کوئی عملی وجود باضابطہ طور پر کسی جگہ موجود نہیں یہ بیان جناب وزیراعظم نے 27 جون کو مظفرآباد کے مقام پر پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے صدر جناب چودھری لطیف اکبر صاحب کی انتہائی بروقت کل جماعتی کانفرنس جس نے مقبو ضہ جموں و کشمیر کی اندرونی صورتحال ،تیرہویں آئینی ترمیم کے اثرات اور مجوزہ چودہویں ترامیم اور کورونا مینیجمنٹ کے موضوعات پر تفصیلی فکری بحث وتمحیص میں کیا۔
اس بہت ہی اہم کانفرنس میں انہوں نے واضع طور پر کہا کہ ابھی ایسی کوئی ترامیم زیر غور نہیں جب ہوئی تو تمام سیاسی جماعتوں پہ مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور قومی اتفاق رائے سے ترامیم ہوں گی ۔ان کے اس بیان کے بعد دوسرے دن ہی اسمبلی میں اتنی “دبنگ” تقریر کی سمجھ نہیں آئی اسی رات انکو کس نے بلیک میل کرنے کوشش کی اور کون ان کو مجبور کر رہا ہے۔اس سے قبل بھی انہوں نے مختلف موقعوں پر ایسی ایسی بے پر کی اڑائی کے یار لوگ پریشان ہو گئے اور ساری قوم کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہو گئی مثال کے طور پہ ایک بار آپ نے فرمایا کے یہ اسمبلی آزادکشمیر کی آخری اسمبلی ھو گی، اسمبلی کا ان کیمرہ اجلاس طلب کرلیا گیا، آل پارٹیز کانفرنسز بلا لی گئی لیکن سر جوڑ کے رازداری سے پوچھنے پر پتہ چلا ایسی تو کوئی سنجیدہ بات نہیں ہوئی۔ گویا کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔
بہرحال گذارش یہ ہے کہ چودہویں ترمیم کا معاملہ کہیں نہ کہیں زیر غور ضرور ہے۔اب سوال یہ ہےکہ چودہویں ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے۔عوام الناس کو صیح معلومات فراہم کی جانی چاہیے ۔میرے ناقص علم کے مطابق جب تیرہویں ترمیم پاس کئے جانے کے لیےزیر غور تھی جناب وزیراعظم تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے شلجم سے مٹی جھاڑنےکے لیے مل رہےتھے تو ان کو یاد ہو گا کے وہ جب صدر پاکستان پیپلز پارٹی جناب چوہدری لطیف اکبر صاحب سے انکی رہائشگاہ اسلام آباد اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ہمراہ ملنے آئے تھے تو وہاں بندہ نا چیز اور چوہدری پرویز اشرف موجود تھے ہم نے تفصیلی مشاورتی عمل میں سابق پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان کی دستخط شدہ آئینی مسودہ پر عملدرآمد کا مشورہ دیا تھا۔جو ایک متفقہ تاریخی آئینی دستاویز کے طورپر موجود ہے۔
قارئین کرام کی معلومات کے لئے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری جب اس وقت کے قاہدحزب اختلاف موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر صاحب کی دعوت پہ آزاد کشمیر کے دورے پہ تشریف لائے تھے تمام جماعتوں نے آزادکشمیر میں پاکستان کی اٹھارویں ترمیم کی روح میں آئینی ترامیم کا مطالبہ کیا تھا جس کے نتیجہ میں اسمبلی میں ایک کل جماعتی آئینی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے چیرمین چوہدری لطیف اکبر صاحب منتخب ہوئے دیگر ممبران میں، ملک محمد نواز، سردار سیاب خالد (مسلم کا نفرنس)،چوہدری طارق فاروق ، بیرسٹر افتخار گیلانی(مسلم لیگ ن)، محمد مطلوب انقلابی ، میاں عبدالوحید ، سید اظہر گیلانی (پی پی پی)، چوہدری محبوب حسین(آزاد جموں و کشمیر کونسل )، محمد سلیم بٹ (ایم کیو ایم ) شامل تھے۔
کمیٹی کے قیام کے فوری بعد چودھری لطیف اکبر صاحب شدید بیمار ہو گئے اور انکو بیرون لے جایا گیا ان کی عدم موجودگی میں کمیٹی نے نئے چیرمین کے طور پر نا چیز(محمد مطلوب انقلابی ) کا انتخاب کیا۔ اس کمیٹی نے اسمبلی کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں اور دیگر مکاتیب فکر، بار کونسل (وکلاء)پریس کلبز(صحافیوں)علی ہذالقیاس تمام مقتدر صاحب الراےحضرات سے باہم مشاورت سے ایک سال سے زیادہ عرصہ مسلسل شبانہ روز محنت سے ایک متفقہ تاریخی آئینی دستاویز تیار کرتے ھوئے بالآخر اسمبلی میں پیش کر دی۔چونکہ پاکستان میں میاں نوازشریف صاحب کی حکومت تھی لہذا یہاں سے آگے اس عمل کو “ن لیگ ” نے لیکر جا نا تھا۔
اس سارے عمل کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اس کمیٹی کے اجلاسوں میں بطور مبصر بیٹھتے رہے اور کمیٹی ان کے اور اسوقت کے وزیراعظم جناب چودھری عبدالمجید اور جناب چودھری لطیف اکبر سے مکمل رابطے اور رہنمائی میں رہی ۔یہ ساری تفصیلی معلومات عوام الناس کی امانت ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس متفقہ دستاویز کی موجودگی میں تیرہویں ترمیم کا موجودہ مسودہ کس نے جناب وزیراعظم کو دیا جسکو انہوں نے عجلت میں پاس کروا کہ وہ سقم یا خامیاں چھوڑ دیں جسکی وجہ سے آج کسی نئی ترمیم کی ضرورت پیش آرہی ہے ۔
حالانکہ اس مرحلے پر ہم نے تیرہویں ترمیم کی مکمل حمایت اس شرط کے ساتھ کی تھی کہ وہ متفقہ آئینی ترامیم کے مسودہ کی روح میں ہو گی اور وزیراعظم آل پارٹیز کانفرنس کر کے کسی کمی بیشی کی صورت میں تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں گے جو وہ نہ کر سکے۔دوسری جماعتیں تو درکنار سہی اپنی پارٹی کی پارلیمانی پارٹی یا کم از کم کابینہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔یہ ون مین شو رہا یا پھر چند سیکرٹری صاحبان ان کی معاونت و رہنمائی کرتے رہے ۔سر کاری اعلی آفیسران کی فہم و فراست سے انکار نہیں لیکن سیاسی کارکنوں اور عوامی نمائندوں کے سوچ وفکر کے زاویے اپنے اپنےہوتے ہیں ۔صاحبان علم و دانش کی توجہ کے لئے ہم نے تیرہویں ترمیم پہ قانون سازی کے مرحلے پہ ہی عرض کی تھی کے ہم کشمیر کونسل کے مالی و انتظامی اختیارات حکومت آزاد کشمیر کو مکمل طور پر حوالے کیے جانے کے حق میں ہیں اور یہ متفقہ کمیٹی کی سفارشات میں موجود ہے۔
ٹیکس اکٹھا کرنے کے اختیارات حاصل کر لیے گئے جو مستحن اقدام ہے۔ لیکن کشمیر کونسل کو حاصل دیگر کم وبیش 33 سبجیکٹ (امور یا محکمہ جات) کے اختیارات کدھر گئے اس پہ ہم نے غور نہ کیا حضرات ان تمام محکموں کے اختیارات حکومت پاکستان کو دے دیے گئے تیرہویں ترمیم اٹھا کر دیکھ لیں۔بات بہت طوالت اختیار کر جائے گی ۔پھر کبھی ساری تفصیل عوام کے سامنے رکھیں گے ھماری پارٹی نے اس وقت بھی ایوان کے اندر اور باہر اپنا موقف دیا تھا۔لیکن دبنگ وزیراعظم اپنی کامیابیوں پہ بہت پھولے بیٹھے تھے ۔ آزاد جموں و کشمیر کونسل جس کے تمام ممبران خواہ پاکستان سے ھوں یا آزادکشمیر سے سب کے سب منتخب لوگ ھوتے ہیں ۔
ایک منتخب ادارہ کے طور پہ یہ حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے درمیان آئینی طور پر رابطے کا ایک پل تھا۔جو ریاست کے مخصوص آئینی اور سیاسی حثیت کے پیش نظر اس وقت کی پاکستان اور آزادکشمیر کی قومی قیادت نے سر جوڑ کر ایک آئینی منتخب ادارہ تشکیل دیا تھا۔ جسکو تیرہویں ترمیم کےذریعے عجلت میں ناکارہ کرتے ہوئے ہم حکومت پاکستان کے زیر انتظام آگئے ۔اگرچہ ما بعد کشمیر کونسل کو بھی پاکستان کی حکومتوں نے غلط استعمال کیا ۔۔لہذا تیرہویں ترمیم کی خامیوں کو دور کرتے ھوئے اسمبلی میں موجود متفقہ آئینی ترامیم کے مسودہ کے مطابق ریاستی قومی اتفاق رائے سے چودہویں ترمیم لانا ھو گی۔
بغلیں بجانے سے یادبنگ اسمبلی کی تقریروں سے وہ خامیاں دور نہیں ہو سکتی جو ہم کر بیٹھے ہیں ۔ہم ناپسندیدہ سہی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک با ر پھر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے اس پچیدہ،گھمبیر صورتحال میں جناب چودھری لطیف اکبر صاحب کی قیادت میں اپنی قومی اور ملی ذمہ داری پوری کی ہے۔اتحاد و یکجہتی کا پلیٹ فارم مہیا کیا ۔قومی مناصب پہ فائز لوگوں کو بہت باتیں قومی مفادات کے تناظر میں تحمل بردباری اور برداشت سے کرنی اور دیکھنی ہوتی ہیں ۔اپنے ذہن اور دماغ کے ٹمپریچر کو نا چاہتے ہوئے بھی ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے۔۔کچھ سمجھنا اوربہت کچھ سمجھانا ہوتا ہے۔کس کی خواہش نہیں کے ھمارے بہت اختیارات ہوں ہمیں اپنی حثیت میں جانا،مانا اور پہچانا جائے لیکن یاد رہے کے آزاد کشمیر ابھی آزاد و خود مختار ریاست نہیں ایک متنازعہ خطہ جو ھمارے آباءواجدا نے لاٹھیوں کلہاڑیوں سے لڑ کر حاصل کیا تھا اور آزادی کے بیس کیمپ کے طور سارے کشمیر کی آزادی کی جنگ یہاں سے لڑی جانی تھی اور ھے۔اس مقصد و جدوجہد میں ہم کس حد تک کامیاب رہے اسکا خیال آتے ہی دل خون کے آنسو روتا ہے ۔
قربانیوں کی ایک لازوال داستان، خواہ وہ مقبوضہ وادی کے اندر کی میری بیٹی، بہن اور معصوم نوجوانوں کی قربانی ہو یا میری پاک فوج کے جوانوں کا کشمیر کی سرحدوں پہ بکھرا مقدس لہو، یا دفاع وطن کے لیئے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھتے ہوئے شہید ذولفقار علی بھٹو کا نا حق خون سب کی کڑیاں میرے دکھ اور میرے غم کے ساتھ ملتی ہیں ۔ریاست آزادکشمیر کا انتظام وانصرام چلاتے ہوئے، قانون سازی کرتے ھوئے اقوام متحدہ کی قراردادیں، اور ان کے تحت پاکستان کو حاصل اختیارات، ہندوستان کی حالیہ آئینی دہشت گردی، عالمی سیاسی منظرنامہ، جنوبی ایشیا کی علاقائی صورتحال کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
یہ خطہ صرف میرا وطن ،میری جنت ہی نہیں پاکستان کی شہ رگ بھی ہے” ذرا سنبھل کے بڑا نازک آشیانہ ہے۔”ہمیں کھلے دل کے ساتھ عجلت میں کی گئی اپنی ماضی کی غلطیوں کو ماننا ھو گا اور اتفاق رائے سے یکجہتی کے ساتھ قومی مقاصد کے حصول کے لیئے آگے بڑھنا ھو گا ۔
Comments are closed.