5 اگست 2019 مقبوضہ جموں وکشمیر کی تاریخ کا سیاہ دن

تحریر: محمد شہباز

اسلام آباد: مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کو چار برس مکمل ہوچکے ہیں۔ان چار برسوں میں اہل کشمیر پر قیامت ڈھادی گئی ،تاریخ کا بدترین جبر کشمیری عوام پر مسلط کیا گیا۔مودی حکومت نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اپنی ریاستی دہشت گردی میں خوفناک اضافہ کیا ہے جبکہ آرٹیکل 370 اور 35اکی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کو عملی طور پر ایک کھلی جیل میں تبدیل کیا گیا ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد بھارت نے نہ صرف کشمیری عوام پر فوجی محاصرہ مسلط کیا بلکہ یہاں آزادی اظہار رائے کا گلہ گھونٹا اور کشمیری عوام کی سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے۔بھارت نے 5 اگست 2019 کے بعد کشمیری عوام کے تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں کو سلب کر لیا ہے۔حتی کہ مذہبی معاملات میں بھی کھلم کھلا مداخلت کی جاتی ہے۔ کئی برسوں سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نماز جمعہ اور عیدیں کے بڑے اجتماعات پر پابندی عائد ہے ،جبکہ تاریخی جامع مسجد سرینگر کے منبر و محراب کئی کئی ہفتوں تک خاموش ر ہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیرکی پوری آزادی پسند قیادت کے علاوہ مذہبی رہنما بھی بھارتی جیلوں اور عقوبت خانوں میں مقید کیے گئے ہیں ۔مگر اہل کشمیر تمام تر جبر واسبتداد کے باوجود نہ بھارت کے سامنے سرنگوں ہوئے اور نہ ہی تاریخ کی لازوال اور عظیم قربانیوں سے مزیں تحریک آزادی پر کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔

5اگست مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدید تاریخ کا سب سے المناک، دردناک اور تباہ کن دنوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ہندوتوا طاقتوں نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیری عوام کے تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشی، مذہبی اور دیگر بنیادی حقوق کو پس پشت ڈالا ہے۔ 5 اگست2019 ہی وہ دن تھا جب ہندوتوا مودی حکومت اپنی تمام تر فوجی طاقت، وسائل اور اداروں کے ساتھ مل کر مقبوضہ جموں و کشمیر پر حملہ آور ہوئی اور کشمیری عوام کے تمام بنیادی حقوق غصب کئے۔ بھارتی حکومت، بھارتی پارلیمنٹ، اس کی 10 لاکھ ا فواج، درجنوں تحقیقاتی ادارے، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور یہاں تک کہ اس کی مسلم مخالف اور ہندتوا نواز عدلیہ نے کشمیری عوام کو فتح کرنے اور اسے ہندو راشٹر کا حصہ بنانے کے لیے سر جوڑ لیے ۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بدترین ڈکیتی، سب سے بڑی دہشت گردی اور کشمیری عوام کے تشخص، ثقافت اور بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔اس غیر جمہوری،غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ کنٹرول لائن کی دونوں جانب،پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری 05اگست کو ہڑتال،احتجاج اور مظاہروں کا اہتمام کرکے بھارت پر واضح کرتے ہیں کہ اہل کشمیر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو قبول اور تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیرجو کہ ایک بہت بڑی جیل اور دنیا کا سب سے بڑا ٹارچر سیل ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کا ہر انچ ٹرگر ہیپی بھارتی فوجیوں سے بھرا پڑا ہے اور گزشتہ چار برسوں سے مسلسل محاصرے میں ہے۔ 05 اگست 2019 سے قابض بھارتی فوجیوں نے 800 سے زائد کشمیریوں کا قتل عام کرنے کے علاوہ2362 زخمی اور 2500 سے زائد گرفتار کیے اور وہ مختلف من گھڑت مقدمات کے تحت بھارتی جیلوں میں بند ہیں۔اس کے علاوہ بدنام زمانہ بھارتی این آئی اے اور ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے جیسی خوفناک بھارتی ایجنسیوں نے چھاپوں کے نام پر تباہی مچا دی ہے اور سینکڑوں آزادی پسند رہنماوں اور کارکنوں کی جائیدادیں ضبط کر لی ہیں۔ ہزاروں کشمیریوں کی املاک کو بھارتی حکام نے مختلف بہانوں سے مسمار کیا۔ املاک کو سیل کرنے اور مسمار کرنے کا مقصد کشمیری عوام کو ڈرانا اور انہیں غاصبانہ بھارتی قبضہ تسلیم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ وہی استعماری پالیسی ہے جسے اسرائیل فلسطین میں استعمال کر کے انہیں ان کی پشتنی زمینوں سے محروم کر کے ہجرت پر مجبور کر رہا ہے۔بعینہ مودی حکومت بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں صہیونی اسرائیلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

مودی حکومت کے 5 اگست 2019میں غیر اخلاقی اور غیر آئینی اقدام نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچانے کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ نہ ختم ہونے والے لاک ڈاون نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی پہلے سے ہی کمزور معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے اور ہزاروں کشمیریوں کو ان کی زندگی اور روزگار سے محروم کر دیا ہے۔ قصائی مودی کی قیادت میں آر ایس ایس کی حکومت مسلمانوں کا صفایا کرنے، مقبوضہ جموں و کشمیر کو قبرستان میں تبدیل کرنے اور متنازعہ علاقے میں غیر ریاستی ہندوں کو بسانے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کیلئے ہزاروں بھارتی ہندو جنونیوں کو ڈومیسائل جاری ،انہیں کشمیری زمین الاٹ اور اعلی عہدوں پر تعینات کرنا بیرونی لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بسانے اور مقامی کشمیریوں کو غلام اور نوآبادیاتی بنانے کی گہری سازش ہے۔اب بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیا نند رائے نے بھارتی پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 05 اگست 2019 میں جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد29 ہزار 295 اسامیاں پر کی گئی ہیں۔05اگست 2019 کے بعد مقبوضہ خطے میں قابض بھارتی انتظامیہ کشمیری مسلمان سرکاری ملازمین کوکبھی ایک تو کبھی دوسرے بہانے ملازمتوں سے برطرف کررہی ہے ۔ اب تک بیسیوں ملازمین نوکریوں سے فارغ کیے جاچکے ہیں۔ کشمیری مسلمان ملازمین کو بھارتی مظالم کے خلاف اور تحریک آزادی کشمیر کے حق میں مواد سماجی رابطوں کی سائٹوں پر شیئر کرنے کے الزامات میں بھی نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ برطرف ملازمین کی جگہ غیر کشمیری ہندو ملازمین کو بھر تی کیا جا رہا ہے۔ اس صہیونی پالیسی کا مقصد کشمیری عوام سے سب کچھ چھیننا اور انہیں اپنی ہی سرزمین سے ہجرت پر مجبور کرنا ہے۔بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کشمیری عوام کی ہر آواز کو کچلنے کیلئے ہر وحشیانہ حربہ استعمال کرنے کے باوجود کشمیری عوام کو فتح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اہل کشمیر کا جذبہ آزادی ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ کشمیری عوام نے ہندوتوا عناصر کی تمام امیدوں کو خاک میں ملا دیا ہے اور انہیں خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بھارتی ظالمانہ رویے نے کشمیری عوام کے اس یقین کو مزید پختہ کر دیا ہے کہ بھارت ان کا بدترین دشمن ہے اور ان کی زندگی، عزت، مستقبل، مذہبی شناخت، ثقافت اور سب کچھ بھارتی تسلط میں دا وپر لگا ہوا ہے۔ غیر مسلح لیکن بہادر اور پرعزم کشمیری عوام نے اپنے عزم، استقامت اور ناقابل تسخیر جذبے کے ذریعے دنیا کی چھٹی فوجی طاقت کو شکست دی ہے۔

کشمیری عوام نے آر ایس ایس کا خواب چکنا چور کر دیا ہے اور ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں، انہیں مارا جا سکتا ہے لیکن شکست نہیں دی جا سکتی۔ ان کے حوصلے ہمالیہ کی طرح بلند ہیں، بھارت نے 10 لاکھ سے زائد ا فواج کی بنیاد پر اہل کشمیر کو یرغمال بنایا ہوا ہے لیکن بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی تمام فوجیں بھی تعینات کرتا ہے تو بھی شرمناک اور ذلت آمیز شکست اس کا مقدر ہے۔ کشمیری عوام کا بے مثال اور ناقابل شکست عزم بھارت کے لیے نوشتہ دیوار ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیری عوام کی جائز تحریک آزادی کو کچل نہیں سکتی۔ یہ بھارت کے بھی اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بے جا ضد سے باز آجائے اور کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرے۔بھارت بہت تماشے کرکے دیکھ چکا ہے،کبھی G20 کے نام پر تو کبھی پورے بھارت سے ہندئوں کو یہاں لاکر امر ناتھ یاتر ا کو اپنی بڑی فتح سمجھتا ہے مگر بھارت کے اہل دانش جانتے ہیں کہ ان اقدامات سے غربت اور افلاس میں ڈوبی بھارتی عوام کا پیٹ نہیں بھراجاسکتا۔مودی کی قیادت میں بھارت جرمنی کے نازیوں کی طرح ہندوتوا فسطائی ملک بن چکا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کو دستاویزی شکل دے چکی ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی جنگی جرائم عالمی برادری کے لیے چیلنج ہیں۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے ارتکاب پر بھارتی فوجیوں کے خلاف جنگی جرائم کے ٹربیونل میں مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔عالمی طاقتوں کو اپنے دوغلے پن سے باز آکربھارت کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں جنگی جرائم کے ارتکاب سے روکنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت پر اسی طرح پابندیاں عائد کرنی چاہئیں،جس طرح کمزور بالخصوص مسلمانا ممالک کے خلاف عائد کی جاتی ہیں۔ عالمی برادری پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے اور متنازعہ خطے میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے پر مجبور کرے۔واضح رہے کہ 5 اگست 2019 میں مودی کی زیر قیادت ہندوتوا بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے مرکز دو کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے علاوہ کشمیری عوام پر فوجی محاصرہ بھی مسلط کیا تھا۔کشمیری عوام کی جانب سے آج5 اگست کو یوم سیاہ منانا دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کیلئے پیغام ہے کہ کشمیری عوام مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی،ناجائز اور غاصبانہ قبضے کو قبول اور تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ کشمیری عوام مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خاتمے کیلئے جدوجہد میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔عالمی برادری کا فرض ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیرمیں جاری بھارتی فوجی مظالم اور دہشت گردی کو ختم کرائے۔

Comments are closed.