اکتیس دسمبر 2019 چین میں کورونا وائرس سے متاثرہ پہلا کیس سامنے آتا ہے، 20 جنوری تک دنیا کے 4 ممالک میں 300 سے زائد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جب کہ یکم فروری تک یہ انفیکشن 24 ممالک میں پھیل جاتا ہے اور قریب 12 ہزار لوگوں کو اپنا شکار کر لیتا ہے جن میں 250اموات لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کی جانب سے پوری دنیا میں ہائی الرٹ جاری کر دیا جاتا ہے، لیکن کئی حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہوتیں، یکم مارچ تک یہ وباء 110 ممالک میں 90 ہزار کے قریب افراد کو متاثر جب کہ تین ہزار تک جانیں لے لیتی ہے۔
اس وقت یعنی قریب تین ماہ بعد صورت حال کچھ یوں ہے کہ 189 ممالک میں سوا تین لاکھ کے قریب افراد اس عالمی وباء متاثر ہو چکے ہیں، یہ انفیکشن 13ہزار 700 سے زائد زندگیاں نگل چکا ہے، اس تمام تر صورتحال ابھی تک کی مثبت خبر یہ ہے کہ چین نے اس وائرس پہ قابو پا لیا ہے۔
لیکن اگر ہم چین کے متاثرین کی تعداد کو باقی متاثرہ ممالک پہ قیاس کریں اور یہ فرض کر لیں کہ انڈیا، پاکستان سمیت دیگر ایشیائی و افریقی غریب ممالک بھی چین کی طرح ہی محنت کریں گے اور قابو پا لیں گے تو بھی جون تک تقریباً ایک کروڑ لوگ اس وائرس سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جب کہ اموات چار لاکھ تک پہنچ جائیں گی۔
ان اعداد و شمار میں بھیانک ترین بات یہ ہے کہ اس وائرس میں پھیلنے اور متاثر کرنے کی صلاحیت اب تک کے کسی بھی وائرس سے کہیں زیادہ ہے، اسپین جو صحت کی سہولیات میں صف اوّل کا ملک ہے اس کے دارالحکومت میڈرڈ میں انتہائی نگہداشت میں پڑے دو مریضوں کے لئے ایک نرس اور آٹھ مریضوں کے لئے ایک ڈاکٹر میسر ہے۔
اگلے دو تین ہفتوں میں مریضوں کی تعداد دوگنا ہونے کا خدشہ ہے یعنی ڈاکٹرز، میڈیکل سٹاف اور دیگر طبی سہولیات میں مزید کمی واقع ہو جائے گی، اموات میں اضافہ، خوراک کی کمی ہو گی، پوری دنیا میں انسانوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا ہوگا، بہت سے ممالک میں ریاستی نظام مکمل درہم برہم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
غاروں سے نکل کر بستیاں بساتے انسانوں نے خدا سے ہم کلام ہونے سے لے کر دوسرے سیاروں کی تسخیر تک کے دعوے کر رکھے ہیں، پتھر کے دور سے لے کر انفارمیشن ایج تک ہر دور کے انسان نے خود کو ماڈرن اور مہذب کہا ہے اور اس پہ فخر کیا ہے، اب خود کو مہذب ثابت کرنے کا وقت آ گیا ہے ، باوقار جینے اور عزت کی موت مرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
البتہ میں اس کے باوجود اپنے اردگرد دوست احباب کو لغو کاموں میں پڑے دیکھ رہا ہوں، کبھی کبھار تو یہ خیال بھی آتا ہے کہ اچھا ہے کہ یہ بے خبری بھی نعمت سے کم نہیں، جھاڑی میں چھپے شیر سے بے خبر ہرن کان ہلاتی دم جھاڑتی گھاس چرنے میں مگن کچھ اور پل خوفزدگی کی اذیت سے تو بچی رہتی ہے۔
وباؤں کی تاریخ بتاتی ہے کہ بسا اوقات بالکل آغاز میں مرنے والے پسماندگان سے خوش بخت ہوا کرتے ہیں۔ آخر میں گزارش کرتا چلوں کہ یہ میری خواہش نہیں خدشات ہیں اگریہ غلط ثابت ہوں گے تو میں اس پہ دلی خوشی اور راحت محسوس کروں گا۔۔۔
بنی نوع انسان کی خیر
Comments are closed.