باجے والی قوم،قوم کو 76ویں جشن آزادی مبارک،۔۔باجا بجاو،موٹر سائیکل چلاو،چائے پیو، اور سو جاو

تحریر: ارسلان سدوزئی،صحافی۔ اسلام آباد

باجے والی قوم ۔۔۔۔۔۔۔

قوم کو 76ویں جشن آزادی مبارک۔۔۔۔۔۔باجا بجاو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موٹر سائیکل چلاو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاہے پیو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سو جاو

عزوہ ہند کے پیروکاروں۔۔۔۔بے ایمانی سے پہلے بھی بسم اللہ کا ورد کرنے والوں کو سلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملک خداداد کو آزاد ہوئے 76 برس بیت گئے ۔۔۔۔سال بدلے،موسم بدلے،چہرے بدلے،لیکن نہ بدلی تو ملک کی قسمت۔۔۔ان 76 سالون میں نہ ہمیں کوئی الہ دین کا چراغ ملا،نہ مساجد میں دعاوں کا کوئی نتیجہ،نہ 21 توپوں کی گن گرج نے کچھ تبدیل کیا ،نہ ہی قومی ترانے پر ہاتھ سینے پر لگانے سے کچھ بگڑا۔۔۔نہ ہی جگہ جگہ بیٹھے عامل باباوں نے کچھ کیا،نہ پیروں نے نہ پیروکاروں نے ۔نہ سیاست دانوں نے نہ بھائی لوگوں نے۔

سارے کام تو ہم نے کر لیے پھر کچھ کیوں نہیں بدل رہا۔۔۔۔

سمجھ سے بالا تر ہے ،زندگی کی 34 بہاریں میں بھی دیکھ چکا،لیکن پاکستان کی ترقی مرزا غالب کی سائیکل جیسی ہو گئی ،زنگ اترا تو ٹائر غائب ،ٹائر چلا تو پیڈل غائب۔

ہاں بھول گیا تھا ایک چیز میں ترقی ہوتے دیکھی میں نے ،پراپرٹی کے بزنس میں ،ماحولیاتی تبدیلی کو دو منٹ کے لیے سائیڈ پر رکھتےہیں ،اگلے دس سالوں میں پاکستان اتنی پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا کہ یہاں کے شہری کنکریٹ کھا رہے ہون گے ،کنکریٹ پر اجناس اگا رہے ہوں گے،کنکریٹ سے نہا رہے ہوں گے ،تب ہو گی پائیدار ترقی ۔ابھی مجھے تھوڑی تھوڑی سمجھ آ رہی کہ ہمارے وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان پائیدار ترقی سے ایک قدم دور ہے

میں تو کہتا ہوں وزیر اعظم صاحب پائیدار ترقی کے اوپر کھڑے ہیں بس دیکھنے میں زرا دیر ہو گئی ۔۔۔۔۔۔

چلیں ہر شخص تنقید کرتا نظر آتا ہے ،لیکن حل کوئی نہیں بتاتا ایک شخص نے حل بہترین بتایا تھا کہ سکون قبر میں ہے ۔وہ بھی مریں گے تو پتا چلے گا کتنا کوئی سکون ہے لیکن چلو کوئی دیر پا حل تو بتایاکسی نے ۔۔۔۔۔

یار یہ کافر ہیں ان کے ملک میں سنا ہے کہ سکون بھی ہے ،نہ لڑائی ،نہ کچھ بلکہ خوشحالی ہی خؤشحالی ہے ۔

نہ ادھر مساجد نہ ادھر بابے،نہ قران خوانی ہوتی ہے نہ ہی دعائیں ۔۔۔۔پھر بھی ترقی کیسے؟میرے خیال سے اپنا کام بہتر کر رہے ہوں گے ۔فتوی نہ لا دینا یار

اور دوسری ایک التجا ہے ۔۔۔پتا نہیں باجے سے کون سے آزادی نکلتی ہے ۔۔۔۔۔اگر باجے سے قوم بنتی تو ہماری قوم نمبر ون ہوتی ۔۔۔۔پوری رات کی نیند ہرام ہوئی یقین کریں ،لیکن میں نے برداشت کیا،کیونکہ مجھے پتا تھا سارا زور آزادی پر لگ رہا تو صبح حالات بدلے ہوں گے ۔۔لیکن صبح سب ویسے کا ویسہ تھا ۔۔۔۔۔۔چلو بجاو باجے

تنقید برائے تنقید کا کام ختم کرتے ہیں یہاں۔۔۔۔کچھ بہتری کی گنجائش نکالتےہیں ۔۔۔۔تو بہتری کی بات یہ ہے کہ ہم اپنا کام بہتر کر لیں ۔اپنے ملک پر مٹی پائیں جی ۔۔۔اپنے آپ کو دھوکہ دینا چھوڑ دیں ۔۔۔۔بہتری خؤد نظر آنا شروع ہو جائے گی ۔۔۔۔

Comments are closed.