پردیس میں انشورنس، خوش بختی یہی ہے،آخری سفر کے اخراجات اپنی ہی جیب سے ادا ہوں،

تحریر: سید شیراز بارسلونا

قارئین! حالیہ کرونا وائرس کے بحران کے بعد مسلم کمیونٹی خصوصا پاکستانی کمیونٹی میں یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ قبرستان ہو یا پہلے سے تعمیر شدہ قبرستانوں میں مخصوص حصہ ہو۔ “جانے کیوں یہ جملہ لکھتے پارٹیشن کا دور یاد آ گیا”

خیر اس سلسلے میں مختلف تبصرے سننے کو ملے۔ زمین کے حصول، نقشہ جات، ضروری قواعد و ضوابط یہاں تک کہ بس دسمبر تک منظوری اور کچھ کے مطابق تو منصوبے پر کام بھی شروع ہے۔وغیرہ وغیرہ۔

پاکستانی کمیونٹی کے ایک وفد نے بھی “روکیس بلانکیس” کے ایک قبرستان کی انتظامیہ کے ساتھ ملاقات کی جس کا انتظام قونصلیٹ آفس نے کیا تھا۔ وہاں ذاتی طور پر کسی ایک کمیونٹی کا زمین خریدنے والا منصوبہ فی الحال اتنا قابل عمل نہیں لگا تھا لیکن بعد ازاں یہ خبر ملی کے مختلف اسلامی تنظیمات نے مارچ میں کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کے پیش نظر اپریل 2020 میں ایک درخواست دے رکھی ہے۔ اس پر حکومت پاکستان کے سرکاری نمائندے کی بھی قبرستان کے حوالے سے ضروری پیش رفت نے اس ضرورت اور اہمیت میں اضافہ کیا تھا۔

خبر یہ ہے کہ کل 63 قبریں جن میں بلحاظ تقسیم 189 جسد خاکی دفنائے جاسکتے ہیں اگلے سال 2021 میں مسلم کمیونٹی کو دے دی جائینگی۔معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ دفنائے جانے کے لیے زمین ملنا یا اپنے آبائی ممالک میں جسد خاکی بھجوانے سے ذیادہ اہم اس رقم کا انتظام کرنا ہے جو ان تمام مراحل میں خرچ ہوتی ہے۔

حالیہ بحران میں پاکستانی سفارتخانے کو ایک بڑی رقم اس مد میں خرچ کرنا پڑی ہے۔ اس سے قبل مختلف سماجی شخصیات اس حوالے سے اپنی جیب سے اور کمیونٹی کے چندے سے یہ اخراجات برداشت کرتی رہی ہیں۔

اس عمل کی تعریف اپنی جگہ لیکن پاکستانی آبادی میں اضافے کے بڑھتے ہوئے رجحان اور آئے دن وفات کے سلسلے کے بعد حوصلہ شکنی بھی ہونی چاہیئے۔
یورپ میں مقیم پاکستانی ماہانہ خرچ بھیجنے اور بہترین طرز ذندگی اور دیگر فضولیات پر پیسہ خرچ کر لیتے ہیں لیکن فی خاندان 90 یورو یا ایک بالغ شخص کی 50 یورو سالانہ فیس مقامی تدفین کمیٹیوں کو دینے پر راضی نہیں ہیں۔

راقم الحروف گواہ ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں 50 سے 60 ہزار یورو کی رقم ٹیکسی سیکٹر کے دوستوں نے تدفین کے حوالے سے چندہ کی ہے۔ مساجد کی تعمیر یا دیگر فلاحی کاموں پر کیے جانے والے اخراجات کہیں ذیادہ ہیں۔

بطور ایک کمیونٹی ممبر میں تمام ذمہ دار شہریوں سے یہ اپیل کرونگا کہ کسی بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھیں۔ پنجگانہ نماز کے ساتھ صرف 50 یورو سالانہ اس میں مد میں ضرور ادا کریں۔ یہاں مختلف دیہاتوں، شہروں، حتی کے مسلکی حوالوں سے بھی تدفین کمیٹیاں کام کر رہی ہیں۔

ورنہ بڑھتی آبادی اور معاشی مسائل کے بعد وہ دن دور نہیں کہ لوگ چندے کی اپیل پر کان دھرنا چھوڑ دینگے۔ اور متاثرہ لوگ اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے اس کمیونٹی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے ۔

ایسے کسی دن کا انتظار کرنے کے بجائے۔ لوگوں میں اس بات کا شعور اجاگر کرتے رہیں کے ہمیں اپنا یہ آخری سفر لوگوں کے کندھوں پر تو کرنا ہے لیکن خوش بختی یہی ہو گی کہ اس کے اخراجات ہماری اپنی جیب سے ہی ادا ہوں۔

Comments are closed.