چین اور بھارت میں مسلح تصادم

تحریر: سید عابد علی بخاری

چین اور بھارت کے درمیان کوئی مستقل سرحد نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک میں اکثر کسی نہ کسی محاذ پر کشیدگی جاری رہتی ہے۔ دونوں ممالک کو تقسیم کرنے والی سرحد کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول کا نام دیا گیا ہے۔ ایل اے سی، بھارت اور چین کے مابین 1962 ٫ کی جنگ کے بعد سے غیر رسمی سیز فائر تصور کی جاتی ہے۔دونوں اسے مانتے بھی ہیں لیکن انکار بھی کرتے ہیں۔ یہ سرحد دہائیوں سے وجہ تنازعہ رہی ہے۔ اس سال اپریل سے دونوں ملکوں کی فوجیں اس سرحد پر الرٹ ہیں۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان جون میں ایک دستی لڑائی بھی ہو چکی ہے جس میں دونوں طرف جانی نقصان کی اطلاعات ملتی رہی ہیں۔

 انڈیا کے ایک کرنل سمیت بیس فوجیوں کی ہلاکت نے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو کئی ماہ سے خراب کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین کئی سفارتی اجلاس بھی منعقد ہوئے اور ان میں یہ زور دیا گیا کہ جنگ کسی بھی معاملے کا حل نہیں ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ دونوں ممالک مسائل کا حل سفارت کاری کے ذریعے نکالیں گے۔ اس سب کے باوجود انڈیا کی طرف سےمتنازعہ لداخ میں فوجی دستوں میں مسلسل اضافہ بھی دیکھنے میں آتا رہا ہے۔

 رواں ماہ کے آغاز میں بھارت اور چین کے وزرائے دفاع نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں ملاقات کے دوران باہمی کشیدگی اور باہمی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا تھا۔یہ ملاقات چین کے وزیرِ دفاع کی بھارتی ہم منصب سے ملاقات کی خواہش کے بعد ممکن بنی تھی۔دو گھنٹے سے زائد کی ملاقات کے بعد بھارت کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ایل اے سی پر جلد از جلد امن قائم کرنے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی و فوجی سطح پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

کیا متبادل حل فوجی کارروائی ہے؟

آغاز میں انڈیا ، چین کے ساتھ کسی خطرناک صورت حال سے مسلسل انکار کرتا رہا۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اپنی تقاریر میں برملا چین پر تنقید کرنے اور براہ راست لڑائی مول لینے کے موڈ میں نظر نہیں آتے تھے ۔ انڈیا کے چین کے ساتھ وابستہ تجارتی مفادات اسے چین کے خلاف برملا سامنے آنے سے روکتے ہیں۔ کئی جگہوں پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی کڑی تنقید کے باوجود نریندر مودی چین پر تنقید کرنے یا جون میں اپنے سپاہیوں کے مارے جانے جیسے موضوعات پر خاموشی کا اظہار کرتے نظر آئے۔ اختلافات کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے اور چین سے براہ راست لڑائی سے باز رہنے کی یہ پالیسی اب زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی۔

 انڈین فوج کے سربراہ ‘جنرل منوج نریوانے’ نے رواں ماہ کے آغاز میں آخر اس پالیسی کو ختم کرتے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر صورتِ حال کشیدہ قرار دیتے ہوئےچین کے ساتھ سرحد پر صورتِ حال کو خطرناک قرار دیا۔ اس کے باوجود وہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے خواہاں نظر آئے۔ انٹرویو کے چند دن بعد انڈین آرمی کا ایک بیان سامنے آیا جس میں چین پر دخل اندازی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ چین نے مشرقی لداخ میں ایک مرتبہ پھر سرحدی خلاف ورزی کی کوشش کی تھی۔

اس الزام میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے لداخ کی پیانگونگ تسو جھیل کے جنوبی کنارے سے سرحدی حد بندی کی خلاف ورزی کی کوشش کی جسے ناکام بنا دیا گیا۔ چین کی جانب سے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی تھی۔چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے کچھ عرصہ قبل بھارتی روزنامے ‘ہندوستان ٹائمز’ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مذاکرات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تو فوجی کارروائی کا متبادل موجود ہے۔

باہمی جھڑپوں کی باز گشت جاری ہے:

2017 میں ڈوکلام میں دوماہ سے زیادہ عرصے کی طویل خانہ جنگی اور اعصابی جنگ انڈیا کے لیے درس عبرت ضرور تھی لیکن سکم اور لداخ میں دونوں فوجوں کے مابین حالیہ جھڑپیں کافی خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔5 مئی کو لداخ میں پینگ یانگ جھیل کے مقام پر اور9 مئی کو سکم میں نکولا کے مقام پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے مابین جارحانہ رویہ دیکھنے کو ملا۔اسے کمانڈر کی سطح کے افسران کے مابین مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں میں معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعدانڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بیان دیا کہ چین ایل اے سی پر بڑے پیمانے پر فوجی تعینات کر چکا ہے۔

اس صورت حال نےدونوں ممالک کے مابین تناؤ کو دوبارہ شدید تر کردیا ہے۔جواب میں انڈین آرمی کی جانب سے وسیع پیمانے پر فوج کو اس بارڈر کی جانب جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ سمندر سے ساڑھے 13 ہزار فٹ بلند کوہ ہمالیہ کے اس خطے میں جھڑپ کے بعد دونوں ممالک وہاں ہزاروں اضافی فوجی تعینات کر چکے ہیں۔چین کی وزارتِ دفاع نے 8 ستمبرکو بھارت پر فائرنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ لداخ میں اس کے فوجیوں نے اس وقت جوابی اقدامات کیے جب بھارتی فورسز کے اہل کاروں نے فائرنگ شروع کی۔

جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ بھارت نے انتہائی اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا اور اس کے اہل کاروں نے مغربی سرحد پر لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو عبور کیا اور فائرنگ کی۔ایل اے سی پر 45 برسوں میں فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ دونوں ملکوں میں 1996 میں سرحد پر گشت کے دوران آتشیں اسلحے کے عدم استعمال کا معاہدہ ہوا تھا تاکہ کشیدگی کی صورت میں اس میں اضافہ نہ ہو سکے۔

دونوں ممالک کا خواب مضبوط سرحدی دفاع :

اس پیچیدہ نوعیت کے تنازعے پر چینی موقف یہ ہے کہ غیر تصفیہ طلب سرحدی علاقوں میں بھارت کی جانب سے سڑک کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ پیپلز لبریشن آرمیکے اقدامات کو چین ”ضروری پیش قدمی“ قرار دیتا ہے۔چین اسے چینی علاقے میں حالیہ غیر قانونی دفاعی سہولیات کی تعمیرقرار دیتا ہے۔انڈیا کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ تمام سرگرمیاں بھارتی سرزمین پر کی جا رہی ہیں۔ چین اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ صدر شی جن پنگ مضبوط، بہترین تعمیر شدہ اور جدید سرحدی دفاع کو برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔

سیاسی نقطہ دان کہتے ہیں کہ اگراختلافات، تنازعات میں بدلنا شروع ہو جائیں تو ایک بڑی تباہی اکثر راستہ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ چین اور انڈیا کی کہانی بھی باہمی اختلافات سے کچھ آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ چند ماہ میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سرحدی حدود کی خلاف ورزیوں کے الزام عائد کیے ہیں۔ نریندرمودی حکومت بھی ایل اے سی کے ساتھ ساتھ قومی سطح کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ مالہ روڈ بلڈنگ سکیم نےسرحدی علاقوں کی اہمیت پر خصوصی زور دیا ہے۔ انڈیا جاپان کے ساتھ تعاون سے شمال مشرقی بھارت میں انڈوپیسیفک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ بھارت سرحد پر عسکری صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت اور اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے دیگر ممالک کو اپنا اتحادی بنا کر کام کرنے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔

باہمی تعاون کے باوجود تنازعہ جاری کیوں ہے؟

چین کی آبادی اس وقت ایک ارب 38 کروڑ نفوس سے زیادہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جبکہ بھارت ایک ارب 30 کروڑ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق چین کی آرمی کی تعداد 22 لاکھ کے قریب ہےجبکہ بھارتی فوج کی تعداد ساڑھے چودہ لاکھ ہے۔چین کا دفاعی بجٹ دو کھرب 37 ارب امریکی ڈالر ہے اور بھارتی دفاعی بجٹ 61 ارب امریکی ڈالر ہے۔بھارت کے غیر ملکی ذخائر چار کھرب ڈالر ہیں تو چینی فارن ریزرو 32 کھرب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔

دونوں ایٹمی صلاحیت کےحامل ممالک کے مابین 2012 میں “ورکنگ میکنزم فار کنسلٹیشن اینڈ کوآرڈینیشن آن انڈیا چائنہ بارڈر افیئرز” (ڈبلیو ایم سی سی) کے نام سے اب تک مذاکرات کے 15 دورمنعقد ہوچکے ہیں۔ ایسے ہیخصوصی ترجمانوں کی سطح کی بات چیت کے22 سے زیادہ ادوار بھی ہو چکے ہیں ۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا لائحہ عمل کسی کے پاس نہیں جس سے مستقبل میں ڈولکلام اور وادی گلوان کے حالیہ سرحدی تنازعے کا حل نکالا جا سکے۔ دونوں فریقین کا موقف مختلف اور مبہم ہونے کی وجہ سے ایل اے سی پر کوئی ایسی قابل ذکر پیش رفت نہیں نظر نہیں آتی۔ 45 برسوں میں پہلی باردونوں ممالک کی سرحد پر فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

 لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر دونوں جانب اس وقت جتنے فوجی تعینات ہیں، پہلے کبھی نہیں تھے۔حالیہ دنوں میں کشیدگی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ چند دن قبل دہلی میں راجیو شرما نامی فری لانس صحافی کو چین کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کے پاس وزارت دفاع کی حساس معلومات بھی پائی گئیں۔راجیو شرما کی گرفتاری کے بعد جاسوسی کے الزام میں ایک چینی خاتون اور اس کے نیپالی ساتھی کو بھی گرفتار کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

بدترین صورت حال پر قابو پانے اور کسی ناخوش گوار واقعے سے بچنے کے لیے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کرانے کی پیش کش کر چکے ہیں۔اس کے جواب میں چین نے ثالثی کے لیے کسی تیسرے فریق کی ضرورت سے انکار کیا جبکہ روایتی دوستی کے باوجود بھارت نے بھی اس امریکی پیش کش پر گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔

انڈیا خوف زدہ کیوں ہے؟

بھارت چین کے ساتھ موجودہ تنازعے میںخوف زدہ حد تکمحتاط ہے۔اس وقت بھارت بیک وقت کئی چیلنجز سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے چین کی شکل میں دشمن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت کو اپنی ساکھ بچانے کا مرحلہ درپیش ہے۔ عوام کووڈ 19 سے لڑ رہے ہیں۔ دنیا میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ کورونا کے مریض بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ اس وقت ملک میں کووڈ کے مریضوں کی تعدادساٹھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جو امریکہ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

بھارت میں پہلا مریض 31 جنوری کو رپورٹ ہوا تھا جبکہ دو ماہ میں کرونا کے کل مریض دوہزار بھی نہیں تھے۔ اب پانچ ماہ میں برازیل کو بھی انڈیا پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ امریکہ اور انڈیا میں چند لاکھ کا فرق بھی جلد مٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر انڈیا میں اسی نوے ہزار نئے مریض سامنے آ رہے ہیں۔ جو کہ امریکہ اور برازیل سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ کورونا انڈیا کی معیشت کو بھی تباہ کر رہا ہے۔ اگر کورونا وائرس کی تباہی ایسے ہی جاری رہی تو جلد انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سر فہرست ہوگا۔

موجودہ صورتحال میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر اور اقلیتوں کے لیے غیر مساویانہ قوانین کی وجہ سے اسے اندونی و بیرونی چیلنجز کا پہلے سے ہی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس عالمی بحران کی وجہ سے بھارتی حکومت کو اندورنی و بیرونی تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک کی بگڑتی ہوئی صورت حال انڈیا کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ۔ ان حالات میں سرحدوں کی صورتحال پر چھیڑ چھاڑ کسی بھی صورت بھارت کے حق میں نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی آرمی کے سربراہ کو سفارتی حل کی تلاش ہے۔ بھارت ایسا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس سے اسے اندرونی چیلنجز کو لٹکانے کا موقع مل سکے۔ لیکن دیرپا امن کا خواب توسیع پسندانہ عزائم کی موجودگی میں تلاش کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
بشکریہ نائٹی ٹو نیوز

Comments are closed.