شاطرانہ حلقہ بندیاں، نااہل میڈیا اور پولیٹیکل انجینئرنگ

تحریر: زین الاسلام۔ صحافی اسلام آباد

حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ جاری ہونے پر کل رات ٹی وی اور آج صبح اخبارات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں رپورٹرز اور ایڈیٹرز میں پریس ریلیز سے آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں رہی۔ ہم چھوٹے، بڑے پبلک ڈیٹا پر کام کر کے خبر نہیں دے سکتے۔ حلقہ بندی کسی بھی الیکشن کا اہم ترین پہلو ہوتا ہے، جو الیکشن کے نتائج پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ جبکہ حلقہ بندی رپورٹ معلومات سے بھرپور اور انتہائی اہم دستاویز ہے۔ کل شائع ہونے والی رپورٹ میں کئی ایسی غلطیاں اور مسائل ہیں جو الیکشن کمیشن کے طے کردہ اپنے ہی حلقہ بندی فارمولے کے برعکس ہیں۔ لیکن ہم اسے رپورٹ کر کے ایک ایشو بنانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اور یوں رپورٹ کے ہمراہ بھیجی گئی چند سطری پریس ریلیز تک محدود ہیں۔

المیہ تو یہ ہے بڑے زور و شور سے یہ خبر پیش کی جا رہی ہے کہ قومی اسمبلی کی نشستیں 342 سے کم ہو کر 336 ہو گئی ہیں۔ جبکہ یہ نشستیں اس حلقہ بندی میں کم نہیں ہوئیں۔ یہ تو 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد کی گئیں 2022 کی حلقہ بندیوں میں کم ہوئی تھیں۔ لہٰذا یہ تو معاملہ پرانا ہوا اب یہ کہاں کی خبر!

الیکشن کمیشن آئینی ترمیم کے بغیر ویسے بھی حلقوں کی تعداد نہیں بدل سکتا۔ اور چونکہ اب نہ اسمبلی ہے نہ کوئی ترمیم ہوئی تو ایسے میں یہ بات ہی مضحکہ خیز ہے کہ حلقے کم ہو گئے۔

رپورٹ میں اصل خبریں تو یہ ہیں کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں میں الیکشن کمیشن میں ایک ضلع میں جو فارمولا لگایا وہی فارمولا اگلے ضلع میں جا کر بدل گیا اور یوں کسی ضلع میں حلقہ مقررہ ووٹرز کی حد سے بڑھ گیا اور کہیں انتہائی کم رہ گیا۔ اور یہ سارا معاملہ ‘اسٹیٹس کو’ برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔ یعنی جیسا ہے جہاں ہے کو برقرار رکھا گیا ہے۔ تا کہ کسی سیاسی پارٹی، سیاسی خاندان اور برادری کی ‘Political Empire’ ڈسٹرب نہ ہو اور الیکشن میں انجینئرز کو زیادہ انجینئرنگ نہ کرنی پڑے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے طے کردہ فارمولے سے انحراف کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ تھی وہ حلقہ بندی جس کے لیے 90 روز میں الیکشن کے انعقاد کی آئینی شِق سے روگردانی کی گئی؟ کیا دہائیوں سے چلی آنے والی سیاسی setting کو انتہائی معمولی اور غیر محسوس انداز میں ایک بار پھر ٹرانسلیٹ کرنے کے لیے آئین کی خلاف ورزی کی گئی؟

آگے بھی دیکھ لیجئے گا کہ جب ان حلقہ بندیوں کے خلاف امیدوار اور ووٹر اعتراضات دائر کریں گے تو صرف اور صرف طاقتور سیاسی شخصیات کے ‘ضروری’ اعتراضات ہی سنے جائیں گے اور دیگر سینکڑوں اعتراضات ردی کی ٹوکری میں جائیں گے۔

رہی بات عدلیہ کی تو مجھے وہ کہانی آ یاد رہی ہے کہ کیسے پنجاب کے ایک ضلع کی ایک یونین کونسل کو ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں منتقل کرنے پر ہائی کورٹ نے اسٹے دے کر پورے صوبے کا بلدیاتی الیکشن روک دیا تھا۔ جو بحکم حضور تاحال رُکا ہی ہوا ہے۔

 

نوٹ: نیوز ڈپلومیسی اور اس کی پالیسی کا رائٹرکے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed.