جذباتی قوم کے خطرناک کھیل

تحریر: عابد سعید

گزشتہ چند دنوں سے کافر کافر والے کھیل میں کچھ وقفہ ہوا تو اچانک غداری غداری کھیلنے والے کھلاڑیوں نے دھاوا بول دیا اور غداری کے گول کرنے میں اتنی تیزی دکھائی کہ ایک ہی دن میں ریکارڈ توڑ کھیل پیش کرتے ہوئے جرنیلوں، سیاستدانوں سمیت چالیس لوگوں  کو غداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے لیے قانون کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔  قانون غداری کو کس آنکھ سے دیکھتا ہے یہ آپ اس چیز سے اندازہ لگا لیں کے انصاف کی دیوی بے چاری آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھڑی رہتی ہے۔

اس کھیل میں اتنی تیزی آئی کہ کسی کھلاڑی نے وزیراعظم آزاد کشمیر کو بھی غدار ثابت کرنے کے لیے مقدمہ درج کرا دیا۔ ایک اور کھلاڑی نے کوچ کو اس گول کے بارے میں بتایا تو کوچ  اس گول پر خوشی نہیں منائی جس سے یہ بھی لگا کہ ٹیم کوچ کی مرضی سے نہیں کھیل رہی بلکہ  چیف سلیکٹر  ہی کھلاڑیوں کو اپنی مرضی سے کھلا رہا ہے۔  خیر یہ تو بات ہوئی موجودہ صورتحال کی لیکن اگر ہم تھوڑا سا بغور جائزہ لیں تو مجموعی طور پر بھی ہم بحیثیت قوم بہت جذباتی ہیں۔

ہم بہت ہی جلد باز قوم ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر تھوڑی دیر کسی بات پر سوچ لیا تو شائد وقت ضائع ہو جائیگا لہٰذا  ہماری حتٰی الوسع کوشش ہوشش ہوتی ہے کہ ہر فیصلہ، ہر کام فوری کر دیا جائے اور سوچنے سمجھنے پر زیادہ وقت برباد نہ کیا جائے۔  چاہے ووٹ دیتے وقت بہتر امیدوار کا انتخاب ہو، کسی اہم واقعے پر رائے قائم کرنی ہو، کسی کو  غداری  کا سرٹیفیکیٹ  جاری کرنا ہو یا کسی کو کافر قرار دے کر  مارنا  ہو، ہم جلد بازی اور دلیری کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے  نتائج کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرتے ہیں۔

اس دلیری اور جلد بازی  نے معاشرے  کے بہت سارے طبقات کو کسی حد تک خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اور اس خوف کا سب سے  بڑا شکار شعبہ صحافت سے وابستہ افراد ہیں جو اس ڈر سے بھی سچ لکھنے یا بولنے سے خاموش رہنا کو ترجیح دینا لگ گئے ہیں کہ کب کوئی ”دلیر اور جلد باز“ مذہب کی چادر اوڑھے کفرکا فتوٰی لگا کر اپنی جنت کی ٹکٹ کرانے کے لیے ”بلی“ چڑھا دے یا قومی مفا د کا سہارا لیتے ہوئے غداری کا سرٹیفیکیٹ  تھمانے کے لیے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دے دے۔ دلیری کا عالم تو یہ کہ ہم آئین، قانون میں سے ہی کوئی شق نکال کر آئین اور قانون کو ہی پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں۔

اس دلیری اور جلد بازی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہم سب ایک دوسرے سے ڈرتے اور ڈراتے رہتے ہیں۔ اختلاف رائے کو  گناہ کبیرہ اور غداری وطن کے کھاتے میں ڈالتے وقت زرا سے خیال نہیں کرتے۔ سب سے مزے کی بات تو یہ کہ ہمارے ہاں ہیروز کی بہت زیادہ کمی ہے اور جو بھی دلیری اور جلد بازی کو بروئے کار لاتے ہوئے  کسی کو کافر کہہ کر اگلے جہان کی ٹکٹ  کرا دے ہم اسے ہیرو قرار  دے دیتے ہیں اور آنکھیں بند کر کے اسلام کے قلعے کی حفاظت کے لیے اس کو سپہ سالار بنانے کے لیے بہت سے مزید رضا کار ٹھیکے پر  لے آتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دلیری آتی کہاں سے ہے اوسر اس جلد بازی کو پنپنے کے لیے سازگار ماحول اور مواقع کون فراہم کر رہا ہے۔ کون سے لوگ اور ادارے اس میں ملوث ہیں۔ یہ دلیری اور جلد بازی ہمارے زہنوں پر اس قدر سوار ہے کہ اب اکثر ہمیں یہی سمجھ نہین آتی کہ ہم نے آئین اور قاونون والی کشتی میں سوار ہونا ہے یا یا آئین اور قانون کی بازو اور ٹانگیں توڑ کر اپنی  کشتی میں لادنا ہے۔  یہی سمجھ نہیں آتی کہ کب قران و سنت کو محلے کے مولوی صاحب نے اپنی سیٹ پکی رکھنے کے چکر میں نئے معنی پہنا دیے ہیں۔

ہمارے اداروں اور ہمیں بحثیت قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ ذاتی اور ومی مفاد میں سے کس کو ترجیح دینی ہے۔ سیاسی یا مذہبی اختلاف رائے کو ملکی سالمیت  کے لیے خطرہ سمجھنے کی بجائے اتفاق رائے ہماور کرنے پر توجہ دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ خوف کی فضا سے قومیں آگے بڑھنے کی بجائے پستی کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔

اگر بات کی جائے اقلیتوں کی تو ان کے حقوق کی حفاظت ریاست کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کی زمہ داری ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں نبی آخر زمان حضرت محمد ﷺ کے ارشادات اور احکامات کی روشنی میں اقلیتوں کے ساتھ  برتاؤ کرنا ہوگا۔ اور ہر اس طبقے کو اقلیتی حقوق کی ضمانت دینا ہوگی جو آئین پاکستان کے مطابق خود کو اقلیت تسلیم کریں اور حدود سے تجاوز نا کریں۔  امن کے دشمنوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ توہین رسالت مسلمانوں کے لیے ایک نا قابل قبول عمل ہے  تا ہم مسلمانوں کو بھی شرعی احکامات کی روشنی میں دیکھتے ہوؤے  فیصلے کرنا ہونگے بجائے اتنے اہم معاملات کو چوک چوراہوں میں طے کیا جائے۔ علماء کو اس سلسلے میں عوام الناس کی تربیت پر توجہ دینا ہوگی اور ریاست کو قانون کی عملداری یقینی بنانا ہوگی۔

اقلیتوں کے حوالے سے پیش آنے والے کچھ واقعات  نے ہمارے عدالتی نظام کی سست روی پر کڑے سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔  توہین رسالت اور توہین مذہب جیسے معاملات کے لیے الگ عدالتیں وقت کی عین ضرورت ہیں تا کہ ان معاملات کو بہتر طریقے سے دیکھا جا سکے۔  ریاستی اداروں بشمول عدالتوں کے پر عوام کا عدم اعتماد اگر ایسے ہی بڑھتا گیا تو عوام خود قانون ہاتھ میں لے کر ہیرو بننے میں  بہتری سمجھنے لگ جائے گی۔ یہ معاملہ اگر یہاں نا رکا تو ملک کسی بڑے سانحے کی طرف بھی جا سکتا ہے۔  توہین رسالت، اور ملک دشمنی جیسے  اہم معاملات پر باقاعدہ تحقیقات کر کے  سزائیں دینا جتتا اہم ہے اس سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ان نازک معاملات میں مذہب کارڈ کھیلنے اور قومی مفاد کا کارڈ کھیلنے والے کو بھی نشان عرت بنایا جائے تا کہ مذہبی اور قومی ہم آہنگی کو فروض دیا جا سکے اور بیرونی دشمن اس اندرونی اختلاف اور دشمنی کا فائدہ نا اٹھا سکے۔  عدم برداشت کے ماحول کو ختم کرنا ہوگا، کافر کافر، غدار غدار کھیلنا روکنا ہوگا۔

کافر کافر، غدار غدار ہمارا محبوب کھیل بنتا جا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن یہ وہ کھیل ہے جس میں اگر کھلاڑیوں کی تعداد میں ایسے ہی اضافہ ہوتا گیا تو تو کھیل کا میدان چھوٹا بھی پڑ سکتا ہے اور ایسی صورت میں  میدان کے حصول کے لیے  کھلاڑی آپس میں  بھی گتھم گتھا ہو سکتے ہیں۔ تا ہم ایسی صورتحال میں میدان کسی اور ٹیم کو بھی مل سکتا جو وہاں کوئی نیا کھیل شروع کر سکتی ہے جس سے یہ کھلاڑی پھر کھیل سے بھی جائیں گے اور میدان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

Comments are closed.