اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ یہ محاورا ہم نے کبھی اپنی کتابوں میں پڑھا تھا لیکن اس کی عملی تصویر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں نظر آئی۔ کسی بھی ادارے کے قیام کو مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ بظاہر پاکستان میڈٰیکل کمیشن بھی میڈیکل کے طلبعلموں اور ڈاکٹرز کی سہولت کیلئے قائم کیا گیا لیکن درحقیت اس ادارے کے قیام سے جہاں ایک طرف مخصوص ٹولے کو نوازا گیا تو وہیں ڈاکٹرز اور میڈیکل کے طالعبلموں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔
کہا جاتا ہے کہ آزمائے کو آزمانہ سرا سر جہالت ہے لیکن یہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ طلبہ جو پہلے ہی پانچ سال کی محنت اور امتحانات پر امتحانات دے کر ڈاکٹر بنتے ہیں اور میڈیکل کی تعلیم مکمل کرتے ہیں اب وہ ایک اور امتحان دے کر اپنی قابلیت کو ثابت کریں۔ یہاں یہ شعر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم۔۔۔سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی تو پہلے میڈیکل ریگولیڑی اتھارٹی اور اسکے بعد اسپتالوں پر نت نئے تجربات کیے گئے لیکن ایک بھی کامیاب نہ ہوسکا اور اب باری ہے میڈیکل کی تعلیم کی۔ ایک امریکی نژاد پاکستانی کی ایماء پر میڈیکل کی تعلیم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا گیا ہے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کے قیام سے پہلے ڈاکٹر حضرات بذریعہ الیکشن پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کمیشن میں تعینات ہوتے تھے۔ ڈاکٹر سے انکا یہ حق چھین لیا گیا اور پاکستان میڈیکل کمیشن کو ایک سیاسی ادارہ بنا دیا گیا۔ زیادہ تر ممبران اب ایک فرد واحد کی خواہش پر منتخب ہوتے ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ میڈیکل کی تعلیم کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے کا نائب صدر ایک وکیل ہے۔
جس طرح ایک ڈاکٹر کو انجینئرنگ کونسل ، بار کونسل، یا نرسنگ کونسل کا عہدے دار نہیں ہونا چاہیے ویسے ہی کسی اور پروفیشنل کو میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی کا نائب صدر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ڈاکٹرز کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ دوسرا اہم مسلہ یہ ہے کہ حکومت بلاوجہ ایک اور امتحان کا اضافہ کر رہی ہے۔ پاکستانی طلباء کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی نسبت زیادہ پیپرز دیتے ہیں۔ پالیسی ساز باہر کے ملکوں کی نقل کرتے ہوئے کم از کم اپنے ملک کے مسائل اور اس سے جڑی پیچیدگیوں کو دیکھ لیتے تو بہتر ہوتا اور حالات ایسے نہ ہوتے جیسے آج ہیں اور ڈاکٹرز سڑکوں پر ہیں۔
ایسا نہ ہو کہ کوا ہنس کی چال چل کر اپنی چال بھی بھول جائے۔ امریکہ میں لائسنسنگ امتحانات لیا جاتا ہے لیکن پاس کرنے والوں کو کو اسپیشلائزیشن میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر بے روزگاری کی انتہا دیکھیے کہ کہ پنجاب میں پانچ سو لیڈی ڈاکٹرز کی سیٹ پر بارہ ہزار لیڈی ڈاکٹرز نے درخواست دی۔ این ایل ای امتحانات سے ہمارے ذہین طلباء کا وقت ضائع ہوگا اور کچھ نہیں۔ اگر اس نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو بہت سارے طلبا پاکستانی امتحان کی بجائے امریکہ، انگلینڈ آسٹریلیا کے امتحان دینا زیادہ مناسب سمجھیں گے جہاں انہیں اچھی نوکری اور اچھی تنخواہ دی جائے گی۔ اس سے برین ڈرین ہوگا اور ملک میں ڈاکٹرز کی کمی واقع ہوگی ۔جس کا لامحالہ نقصان ان پاکستانی عوام اور ڈاکٹر کمیونٹی کو ہو گا۔کیونکہ ہمارے سیاستدان تو پہلی فلائٹ سے لندن میں جا کے اپنا علاج کرواتے ہیں۔
تیسرا اہم مسئلہ انٹری ٹیسٹ کا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صوبائی اتھارٹیز میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ کامیابی کے ساتھ لے رہی تھی۔ ایک دن کے اندر پیپر بھی ہو جاتا تھا اور رزلٹ بھی آ جاتا تھا۔ لیکن اس بار ایک مہینے سے اوپر کے عرصے میں امتحان لیا گیا ساٹھ سے زیادہ ٹیسٹ لیے گئے جس سے طلباء کو نہ صرف پریشانی ہوئی بلکہ سب کو برابری کا چانس بھی نہیں ملا۔ کچھ طلباء کو تیاری کرنے کیلئے صرف 20 سے 25 دن کا وقت ملا جب کہ کچھ طلباء کو دو مہینے کا وقت ملا۔ طلبہ میں اس سلسلے میں بے چینی پائی جاتی ہے جو کہ بلکل صحیح ہے۔ ینگ ڈاکٹرز جو کبھی عمران خان کو مسیحا سمجھتے تھے اب ان کی صفوں میں اضطراب پایا جاتا ہے اور وہ کھل کر پاکستان تحریک انصاف کی پالیسیوں کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں ۔ نوجوان ڈاکٹرز کی مایوسی کو ناصر کاظمی کے اس شعر سے واضح کرنا چاہوں گا
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے۔ یہ میری رات کا سویرا ہے۔ رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا۔ اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے لیکن میں اپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اپنے ڈاکٹرز اور میڈیکل کے طلبہ کے حقوق کی آواز ہمشہ بلند کرتی رہے گی۔
Comments are closed.