اٹھارہ سال کی ہوئی تو پاکستانی الیمنتاسیون میں کام مل گیا. ایک دن کام کر رہی تھی تو الیمنتاسیون کے مالک چوہدری صاحب نے کہا مہمان آئے ہیں اوپر پیسو میں آ جا کر چائے بنا دو. جب میں چائے بنانے اوپر پیسو کے کچن میں گئی تو مہمان نے آ کر مجھے پکڑ لیا. میں گھبرا گئی اور چیخ مارنے لگی تو مہمان نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ ‘بدنامی تیری ای ہونی جے کاکی تے کیسے نے ویاہ وی نئی کرنا تیرے نال، تیرا پیو خود کشی کر لیوے گا’ میں مجبور ہو گئی اور لٹ گئی. واپس آ کر میں نے چوہدری صاحب کو بتایا تو وہ ہنس کر بولے ‘تیرا کی گھسیا جے کاکی؟ کوئی فرق نئی پیندا ایس کم نال اج تک کوئی نئیں مریا، مزے لیا کر، چل ایدکی تیری تنخواہ اج پنجا یورو دا بونس پا دیاں گا”
.
یہ قصہ سن کر میری آنکھیں نم ہو گئیں. یہ مبینہ قصہ بارسلونہ کا ہی قصہ ہے اور کیونکہ میرے پاس ثبوت موجود نہیں ہیں اس لئے چوہدری کا نام ظاہر نہیں کیا جا سکتا. لیکن نوجوان لڑکی کی باتوں میں صداقت جھلک رہی تھی کیونکہ اس واقعہ کے ساتھ جڑا اس بچی کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دے رہا تھا جو وہ سنا کا حاصل کرنا چاہتی ہو.
.
قارئین؛ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی کمیونٹی میں کم عمر بچیاں نہ صرف پاکستانی مردوں کے سٹیریو ٹائپ سے ناواقف ہیں بلکہ ان میں استحصال سے بچنے کے طریقوں کے شعور کی بھی شدید کمی ہے. ان دونوں باتوں کی ایک بڑی وجہ گھر کی تربیت ہے جہاں لڑکیوں کو “تابع فرمان” رہنا سکھایا جاتا ہے. اس بات پر ان کو دانت پھٹکار بھی کی جاتی ہے کہ بڑوں سے بحث نہیں کرتے، پلٹ کر جواب نہیں دینا. پھر ایک اور بڑی وجہ بیٹیوں اور باپ کے درمیان خلیج کا ہونا ہے. پاکستانی اکثریت باپ اپنی بچیوں سے فی زمانہ پیچیدہ مسائل پر بات نہیں کرتے حالانکہ باپوں کے پاس بہت تجربہ ہوتا ہے دنیا میں ہونے والی بدکاریاں دیکھنے کا لیکن وہ اس تجربہ سے حاصل شدہ سبق کی روشنی میں اپنی بچی کی تربیت نہیں کرتے.
.
اب ہوتا کیا ہے؟ جب یہ بچیاں یورپ آتی ہیں تو ان کے سامنے دنیا کھلتی ہے. اب ان کو خود باہر جانا ہوتا ہے. نوکری کرنی ہوتی ہے. معصوم بچیاں جب نوکری کی تلاش میں کسی غلط چوہدری کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں تو وہ اس بچی کی دیسی تربیت کا پورا فائدہ اٹھاتا ہے کیونکہ بچی کی تربیت میں شامل ہے کہ بڑوں کے آگے بولنا نہیں، چوہدری اڈھیر عمر کا اس کے سامنے باپ جیسی ہستی رکھتا ہے اس بات سے قطع نظر کہ چوہدری نے بچی پر کیسی نظر رکھی ہوئی ہے. پھر پلٹ کر جواب نہ دینے کی تربیت، چوہدری کو فائدہ دیتی ہے کہ جب وہ دست درازی شروع کرتا ہے تو لڑکی دم سادہ لیتی ہے. مزید یہ کہ پاکستانی معاشرہ جو ان چوہدریوں کا بنایا ہوا ہے کہ کسی بچی کے ساتھ جب خدا نخواستہ زیادتی ہو جائے تو بجائے بچی کو ٹروما ریکوری کروانے اور چوہدری پر لعنت مارنے کے اسی بچی کو مورد الزام ٹہرانے لگ جاتے ہیں. ان تینوں کا امتزاج ادھڑ عمر چوہدری کو بدکاری کے لئے انتہائی موزوں ہوتا ہے جبکہ معصوم بچی اس کے لئے ایک آسان ہدف بن جاتی ہے.
.
ضرورت اس بات کی ہے پاکستانی باپ ایک حکمت عملی طے کرے. اگر آپ نے اپنی بیٹی کو صرف ایک ہاؤس وائف بنوا کر شوہر کے رحم و کرم پر چھوڑنا ہے تو پھر ایسی ہی تربت کرتے رہئے جو روایتی انداز ہے. لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بچی میں اعتماد پیدا ہو، معاشرہ میں مقام پیدا کرے تو بحیثیت باپ آپ کو اپنی ذمہ داریاں سمجنا ہوں گی. بچیوں کے ساتھ بات کیا کریں، ان کے مسائل کو بچپن سے ہی سننے کی عادت ڈالئے. ان کو دنیا کے حالات سے اگاہ رکھنا بہت ضروری ہے. ان کو اجنتامینتو کے ایسے کورسز کروا دیجئے جو وائولنسیا ماچستا سے بچاؤ کے لئے حکومت اسپین نے مفت شروع کر رکھے ہیں. یقین مانئے وہ کورسز اعلیٰ ماہرین نفسیات کے مرتب کردہ ہیں. اپنی بیٹی کو تحفظ کے تمام اسباب سکھا دینے والے باپ کو انکی بیٹیاں ایک ہیرو کا درجہ دیتی ہیں اور ایک مسلمان ہونے کے ناطہ بھی یہ آخرت میں آپ کے لئے جنّت کی ضمانت بھی ہے.
.
دعا کر دینا بھی حق ہے مگر خالی دعا کر دینا ذمداری سے فرار اختیار کرنا ہے جو اللہ کو ناپسند ہے. دماغ کا استمعال نہ کرنا بھی کفران نعمت ہے. اس لئے دوا پہلے کیجئے اور بھر اسکے بعد دعا کیجئے. اللہ پاک سب بیٹیوں بچیوں کو محفوظ رکھے اور ان کے مان کو ہمیشہ قائم رکھے – آمین!
Comments are closed.