تحریر اسجد چیچی
اگر مجھ سے سوال کیا جائے کہ برصغیر کا سب سے مظلوم طبقہ کون سا ہے تو میرے ذہن میں سب سے پہلے کسان کا نام آئے گا اور زبان پر بھی یہی نام ہوگا میں نے اپنی پوری زندگی میں کسان بدحال ہی دیکھا اور سنا ہے۔پاکستان پنجاب کے کسان کو بدحال اور مقروض دیکھا اور انڈین کسان کوذلیل وخوار ہوتے سنا انڈین پاکستانی کسان اپنی ہی فصل کی قیمت نہیں لگا سکتا ساری محنت اس کی گرمی سردی یہ برداشت کرے اور اس کی فصل کی قیمت کوئی اور لگائے اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے کسان سے تو مزدور بہتر حالت میں ہے جو تھوڑی سہی لیکن اپنی مزدوری طے تو کر لیتا ہے
کسان اپنی بدحالی سے اسی وقت چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے جب اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے لڑے اور اپنے حقوق کے لیے لڑائی اسی وقت کارگر ہے جب کسان طبقہ میں اتحاد ہوکسان کی موجودہ جدوجہد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے توپاکسانی کسان اس معاملے میں بہت پیچھے ہےجبکہ انڈین کسان بہت آگے ہےپہلے پاکستانی کسان کی جدوجہد کا جائزہ لیں تو بہت مایوسی اور دکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے گذشتہ دنوں پاکستانی کسان جب مظاہرے کے لیے نکلے تو ان کی تعداد افسوس ناک حد تک کم تھی
ایک کسان بھائی اشفاق لنگڑیال پولیس تشدد سے شہید ہوگئے ان کی شہادت پر کچھ دن واویلا ہوا وہ بھی اخبارات کی حد تک اور اب مکمل خاموشی ہے اس خاموشی کو موت سی خاموشی کہا جاے توغلط نہیں ہوگا سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود پاکستانی کسان نااتفاقی کا شکار ہے جبکہ زندگی کے باقی تمام شعبوں میں یونین ہے فورم ہے ٹرانسپورٹرز کی یونین ایک کال کرے تو پہیہ جام ہوجاتا ہے تاجر اتحاد کال کرے تو شٹرڈاؤن ہوجاتا ہے وکلاء تو باقاعدہ ڈنڈا استعمال کرتے ہیں یہ نہیں کسان کے نام پر پاکستان میں کوئی فورم نہیں کسان فورم ہے اس کے باقاعدہ عہدیدار ہیں۔
ہر سیاسی جماعت میں کسان ونگ ہے لیکن سب فورم اور ونگ کاغذات کی حد تک ہیں عملی طور پر صفر ہیں قصہ مختصر پاکستانی کسان کا کوئی پرسان حال نہیں پنجابی شاعر افضل ساحر کا ایک شعر پاکستانی کسان کی موجودہ صورتحال پر بالکل صادق آتا ہے
دومالک رل کہ بہہ گے
اسیں لکھاں کلے
مطلب دو مل مالکان تو مل کر بیٹھ گئے لیکن ہم لاکھوں کی تعداد میں بھی ہو کر تنہا ہیں دوسری جانب انڈین کسان اپنے حقوق کے لیے نکلے ہیں بلکہ اب بیٹھ گئے ہیں دلی کا محاصرہ کر کے بیٹھ گئے گے ہیں انڈین کسان کی مکمل بھاگ دوڑ پنجابی کسان کے پاس ہے اور انڈین کسان کا اتحاد بھی اس وقت مثالی ہے مستقبل قریب حال میں ایسی جرآت مندانہ کسان تحریک دیکھنے کو نہیں ملتی انڈین کسان تحریک میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں جن میں دس سال کے بچے سے لے کر اسی سال کے بوڑھے شامل ہیں اس تحریک میں کوئی صنفی امتیاز بھی نہیں خواتین اور جوان لڑکیاں بھی اس دھرنے میں شریک ہیں زندگی کے باقی تمام شعبوں سے بھی لوگ شامل ہیں جیسے گلوکار جنگی ترانے گا کر مظاہرین کا لہو گرما رہے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح گلوکار اداکار اور مقررین دلی سرکار کو للکار رہے ہیں ان پر غداری کا کوئی جھوٹا پرچہ بھی درج نہیں ہورہا انڈین پنجابی کسان کے مثالی اتحاد اور ان کی جرآت مندانہ جدوجہد کو سلام
Comments are closed.