۔ Get well Soonسے اِنَّالِلَه وَاِنَّااِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ تک کا سفر ۔

تحریر:نورالامین دانش

’’او چل یار ڈرامے نا کر ، نہیں کھاتا تجھے کورونا ایک لائیو کروا دے اور ہاں ساتھ ساٹ بھی لے لینا‘‘

دنیا بھر کے معمولات زندگی کے پہیے کو جام کرنے والے کورونا وائرس کی میڈیا انڈسٹری میں آنے سے پہلے اپنی ہی گراریاں فیل ہو چکی ہیں۔ تحریرکے شروع میں بیان کی گئی لائن میڈیا انڈسٹری سے وابستہ ہرشخص کی موجودہ صورتحال کا مرثیہ سنا رہی ہے۔ اربوں کا بزنس کرتی انڈسٹری نے اس مشکل صورتحال میں ورکر کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔

کورونا کے اوائل دنوں میں چھینک، کھانسی اور بخار کا شکار ہونے والے دوست جب اس جان لیوا وائرس کی علامات کا کہہ کر چھٹی کی کوشش کرتے تو سلطان راہی کے قہقہوں سے بڑی طبل قہقہ محفل سج جاتی اور بجائے احتیاط یا ریسٹ کا مشورہ دینے کے اسے موسمی وبا قرار دے کر کام جاری رکھنے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔

جن اداروں کے لئے لاعلاج مرض میں بھی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے ہر حکم کی بجا آوری کے لئیے پہلی صف میں لبیک کہنے والی مخلوق پر جب یہ وائرس مکمل طور پرحملہ آور ہو چکا ہوتا ہے تو پہلا احسان اسے چھٹی دے کر کیا جاتا ہے، چند ہزار تنخواہ لینے والا معمولی کارکن کہاں سے اپنا اور خاندان کا آٹھ دس ہزار مالیت کا ٹیسٹ کروائے۔

خیر کسی نہ کسی طرح منت سماجت کر کے کورونا ٹیسٹ کروانے کے بعد جب رپورٹ پازیٹو آتی ہے تو ’گیٹ ویل سون‘ کا کاپی پیسٹ موبائل میسج آپ کی دہلیز تک پہنچاتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کر دی جاتی ہے۔

وزیراعظم سے لے کر بیوروکریسی کی بال سے کھال اتارنے والی انڈسٹری اپنے ورکرز کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے۔ آپ دو تین ہفتے اس وائرس سے جنگ لڑتے ہیں قسمت اچھی ہو تو صحت مل جاتی ہے نہیں تو پھر ایک میسج جو کہ اکثر اوقات ٹائپ شدہ ہوتا ہے اِنَّالِلَه وَاِنَّااِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ۔۔۔۔ آپ کے خاندان، ادارے کے تمام دوستوں اور سوشل میڈیا پر ڈال کر ذمہ داری پوری کی جاتی ہے اور یوں آپ کا قصہ تمام ہو جاتا ہے۔

اس بحران میں بھی کچھ ادارے بہتر پالیسی کے ساتھ میدان میں موجود ہیں، میں خود ایسے ادارے سے وابستہ ہوں جہاں ورکر کو اس وبا کے دوران ریلیکس کیا گیا، اس کی زندگی کو ترجیح دی گئی اس کے باوجود بہترین نظام چل رہا ہے۔

تمام دوست اس ایمرجنسی صورتحال میں کام ضرور کریں لیکن احتیاط کا دامن تھام کے کیونکہ آپ کی اہمیت ان مگر مچھوں کے لئیے کسی سے آپ کا نام پوچھ کر تعزیتی میسج سے زیادہ ہر گز نہیں ہے۔

Comments are closed.