بارسلونامیں عمران علی چوہدری کا خطاب، مخاطب کون تھا حاضر یا غائب؟

تحریر: ڈاکٹر راجہ عرفان مجید سائر۔ بارسلونا

عمران علی چوہدری، خطاب اور کچھ جھاڑ پُونچھ

—————————

خطاب تاریخی تھا۔

چوہدری صاحب کے حامی عناصر کے لیے تاریخی اور مخالف عناصر کے لیے تاریخی سے مراد ہفتہ بروز ۰۹ ستمبر ۲۰۲۳۔

ہماری ذاتی رائے میں سفیرِ پاکستان کا خطاب نپا تُلا، بے باک اور کُھلا ڈُھلا تھا۔ اُنہوں نے تعریف کی تو کُھل کر اور اگر گالم گلوچ سے کام لیا تو ڈُھل کر مگر پچاس منٹ اُنیس سیکنڈز میں کچھ ایسا نہیں تھا جس پر یہ کہا جا سکے کہ “چوہری نے زیادتی کیتی اے”۔

ہمیں تو خیر پہلے سے معلوم ہے مگر عمران علی چوہدری کے بطور قونصل جنرل آف بارسلونا آخری پروگرام کا انعقاد جب بارسلونا کے ایک معروف تھئیٹر میں کیا گیا تو خاک سائر جان چُکا تھا کہ اُستاد کوئی تھئیٹر لگے گا۔ تھئیٹر کو کون ٹال سکتا ہے؟ چوہدری صاحب کے لیے ہوئے حلف کے ٹکڑے بارسلونا کی گلیوں، قہقہوں اور ٹھٹھوُں میں دب گئے۔ ہم نے کئی تماش بِینوں کو ہال سے نکلتے سُنا “کل کسے نُوں حلف یاد وی نہیں ہونا”۔

ہمارے نزدیک گالم گلوچ کی حیثیّت حلف وغیرہ سے بڑھ کر ہے۔ ہماری تو رائے یہ ہے کہ آپس کے معاملات سُلجھانے ہوں تو بجائے حلف کے بڑی موٹی ماں بہن کی گالی ڈال لیا کیجیے اور پھر دیکھیے کیسے ملت کا ہر فرد عہد کی پاسداری کرتا ہے۔ یہ اُمت وغیرہ کا دھوکا ہم صرف دوسروں کو دیتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کلام پاک اور احادیث کی تکریم غلافوں میں لپیٹنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ گالم گلوچ کا احترام، تقدس عام ہے اور ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ “یہ ناقابلِ برداشت ہے” مگر گال پا دینے کے بعد اُس کی پاسداری حُکمِ خدا وندی سے یہی بالشت بھر اِدھر کی جاتی ہے۔ اب ایسے حالات میں سفیرِ پاکستان اومان نے ہمارے گندے پوتڑے عین چوک میں دھو ڈالے تو کیا غلط کیا؟

اخلاقاً یہ غلط ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کو گالم گلوچ سے اجتناب کرنا چاہئیے، جائز بات ہے۔ خاص طور پر جب وہ ایک پدری شفقت اور صلہ رحمی کا داعی ہو، تب اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

سماجی طور پر چوہدری صاحب نے جسے اور جو کچھ کہا اُس میں اُنہوں نے دو طبقوں کو مخاطب کیا۔ اوّل حاضر اور دوم غائب۔

حاضرین سے اُنہوں نے جو کہا وہ اُس کے مستحق تھے کہ اکثر حلف اُٹھانے والے، عمران علی چوہدری کے دور میں فرشِ مخمل پہ چل کر کمر درد کی شکایت کیا کرتے اور کیلا کھا کر دانت ہلنے کی مرض میں مبتلا رہتے تو جو اُن کو سُننا پڑا وہ اُن کا ٹھیک علاج ہوا ہے۔ شافی مگر ناکافی علاج مگر اس میں بھی اہلِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں۔

غائب سے خطاب میں جس سطح پر چوہدری صاحب نے پیغام دیا تو بھئی بات سادہ ہے کہ اُس سطح پر پیغام یوں ہی اشارہ و کنایہ میں دیا جاتا ہے۔ پیغام دینا مقصود ہوتا ہے نام لے کر عزت دینا نہیں۔ حاضرین کی طرف سے کوئی ایسا ردِ عمل نہیں آیا جو قابلِ ذکر ہو سوائے اس کے کہ گالیاں نہیں دینی چاہئے تھیں۔ غائبین کی طرف سے ردِ عمل پُھسپُھسا سا ہے یعنی اِدھر ڈُوبے اُدھر نکلے والا اور جتنا یہ ڈوب اور نکل رہے ہیں اُس پر تھکنا بنتا ہے، سفیرِ پاکستان اومان کو مزید گالیاں نکالنا اور نکلوانا بنتا ہے جو یہ مکتبہِ فقر پانچ سال سے کرتا آ رہا ہے۔ اگر ایک دن دس پندرہ منٹ چوہدری صاحب نے گالیاں دے لیں تو پاس کر یا برداشت کر والا معاملہ کرنا چاہئیے کہ یہی پاس اور برداشت کر چوہدری صاحب پانچ سال سے کرتے آ رہے ہیں۔ ہاں، سفیرِ پاکستان سے دست بستہ درخواست اتنی ضرور ہے کہ اگلی دفعہ بھرے مجمعے میں گالی گلوچ نہ کی جائے اور اگر کرنی ہو تو باقاعدہ دیسی قسم کا پنڈال سجایا جائے یا چھوٹی چھوٹی محافل میں ایسا کیا جائے۔

اب آ جائیے اُن کے فرداً فرداً بعض اصحاب کے کانوں کی کھینچا تانی پر۔ یہ ضروری تھا اور اہم اس لیے کہ ہم بہ طور معاشرہ واقعی مصلحت کیش، یاریاں نبھانے والے، اندرو اندر جوڑ توڑ کرنے والے اور تماش بیں اور یہ ہمارا ہر ہر جانتا ہے۔

آمنہ عُمر کے باب میں ہمارا نقطہ روزِ اوّل سے واضح ہے اور ایسا کہ سابق قونصل جنرل آف پاکستان مرزا سلمان بابر بیگ فون کر کے فرما چُکے ہیں کہ اُنہیں ہم سے اس کی توقع نہیں تھی مگر کیا کیجیے ہم نے توقع کرنے والی یکی زندگی میں نہیں کی۔ توقع وابستہ کرنا خاک سائر کے نزدیک ایک چُوتیا سی اصطلاح ہے جس کی اُمید معاشرے کے اکثر دوسروں سے لگائے قبروں میں جا پہنچتے ہیں۔

بات سیدھی ہے اور سادہ و سلیس زبان میں جس کے ساتھ اعضائے رئیسہ لگے ہوں وہ س….. کی طرف جائے گا۔ توقع وابستہ کرنا “نہیں جائے گا ” جیسا معاملہ ہے۔ زبان ہے تو بولے گا اور کان ہیں تو سُنے گا جب کہ ناک ہم سب جانتے ہیں کہ سُونگھنے کے لیے ہے۔ توقع کاہے کی، میاں؟ انسانی معاشرت کے اپنے آداب اور اسلوب ہیں، ریت رواج اور سلیقہ ہوا کرتا ہے اور ہم ہر شے کو “متوقع” کے درجہ میں رکھنا چاہتے ہیں۔ فعل ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، جو ہو اور نہ ہو وہ کُھسراپا کہلاتا ہے،

احباب۔ مرزا سلمان بابر بیگ کہاں کے ملائکہ صفات لے کر اُترے تھے کہ اُن سے توقع کی جاتی کہ وہ اس جُرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔البار۔ عدالتیں، پاکستان کے ادارے کہتے ہیں اُنھوں نے جُرم کیا، سو کیا۔ اللہ پاک کو جو معلوم ہے وہ ہمیں معلوم نہیں اور انسانوں کو عدالتی اور اداروں کے فیصلوں پر یقین کر کے چلنا پڑتا ہے۔

 ہمارے لیے مسئلہ آمنہ عُمر سرے سے ہے ہی نہیں۔ فرض کر لیجیے، اگر ہم آمنہ عُمر کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے ہوتے۔ وہ ایک بہادر خاتون ہیں جو بولی ہیں۔ آمنہ عُمر استعارہ بن چُکی ہیں اور ہر نامرد زنخے کے سینے پہ مونگ دلی جاتی رہے گی جس کو سوائے اپنی بیٹی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ خدا کے بندو، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔ آمنہ کے باب میں خاموش ہر زنخا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پر یہ داغ لگوا چُکا ہے کہ اُس قوم کی بیٹیوں کے مُستقبل کی رتی برابر پرواہ نہیں۔ کل کلاں یہی آگ کسی اور گھر جائے گی تو ثبوت اور سکون ملے گا؟۔ ہم چاہتے کیا ہیں بہ حیثیّت کمیونٹی؟ یہ کہ ہماری بچیاں، بہو بیٹیاں گلی محلوں، دفاتر میں محفوظ رہیں یا تمام عُمر لبوں کو سی کر سب کچھ برداشت کرتی رہیں؟

بُرا منا لیجیے، ہماری بلا سے، اس قسم کی برداشت بے غیرتی ہے۔ آمنہ عُمر با غیرت ہیں اور اُن کے خلاف کھڑا ہونے والا، پلے کارڈ لکھنے والا، اُٹھانے والا، احتجاج کرنے والا، غدار کہنے والا اور کہلوانے والا، اُن کو اُس نوبت تک ہراساں کرنے والا ہر ذی روح بے غیرت ہے۔ خاک سائر ذاتی حیثیّت میں آمنہ عُمر کے ایک احسان کا مقروض ہے اور ہمیشہ رہے گا اور اجتماعی زندگی میں ہماری کوئی بچی، بیٹی، بہن زبان کھولے گی تو اُسے چُپ کروانے والی ہر اُنگلی والے کو ہاتھ دیا جائے گا۔ مُنہ کی بواسیر کا شافی کافی علاج کیا جائے گا۔ اس بات پر سفیرِ پاکستان اومان کم آگ بگولا ہوئے، تھوڑا اور کھینچنا چاہئیے تھا۔ ایک مظلوم کو زدوکوب کرتے، ڈراتے دھمکاتے، ہراساں کرتے تمھیں کیڑے نہیں پڑے سو اب اگر پڑے ہیں تو صبر اور نماز سے کام لیجیے۔ سُبحان اللہ، مالک بھی ایسا پاک ہے کہ صبر اور نماز کی شرط ہر پاک و ناپاک کے لیے مساوی رکھ دی۔

کشمیر، ایک اور سُلگتا موضوع ہے۔ جہاں راجہ نامدار اقبال خان (پاکستانی کمیونٹی کے پہلے باقاعدہ وکیل) سے مکالمہ ہوا وہاں اُن پاکستانی اور کشمیری رہنماؤں کا ذکر خیر ضروری تھا جو اُن دِنوں پیش تھے، پھر زبر ہوئے اور زیر ہو گئے۔ سپین میں راجہ نامدار اپنے تئیں کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں اور مُکرّر عرض ہے کہ جموں و کشمیر کو ان کشمیری غریب الوطنوں نے نہیں وطن میں بیٹھے حاضر سروسوں نے بیچا ہے۔ یہ جو جھنڈا اُٹھائے پھرتے ہیں قابلِ قدر ہیں کہ اپنی مٹی کی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

خطاب کے ایک حصے میں کمال کی جھول تھی۔ سیاسی وابستگی سے عدم تعلق کے بعد نو مئی کے بعد ریاست کا اختیار استعمال کرنا۔ کوئی عرض ورض نہیں، سیدھی بات یہ ہے کہ ریاست نے اپنے لوگوں کو مفتوح، مقہور، مظلوم اور مجبور بنایا۔ اس حصے پہ تکلیف ہوئی۔

پاک فیڈیریشن ہسپانیہ بھی سوچتی ہو گی کہ اُن کے پلیٹ فارم سے یہ سب کیا ہو گیا۔ ابھی تو خدا کا شُکر ہے اُنھیں مُنہ چھپانے کی عادت نہیں ورنہ وہ تو اب تک گڑ چُکے ہوتے۔

خطاب میں خاندانوں کا نام نہ لیا جاتا تو بہترین ہوتا۔ گوندل لفظ کو باقاعدہ رگڑا گیا۔ ہم جانتے ہیں ایسا بہ طور تشبیہ (Metaphorically ) کیا جاتا ہے اور مقرر کی ان تشبیہات سے کوئی ذاتی تنقید مقصد ہوتا ہے نہ ارادہ مگر ہمارے خیال میں سرِ دست بہ طور برادری ہم اس سطح سے کُچھ دور ہیں اس لیے براہ راست خاندانوں کا نام لینے سے اجتناب ضروری ہے۔ یوں بھی ہم نے لکھ رکھا ہے۔

“راجے خاجے چوھری شوھری اِک برابر”

اِس لیے بجائے دِل پر بات لینے کے درگُزر افضل ہے کہ مہمان کا حق ہوتا ہے۔ یقین کیجیے عمران علی چوہدری نے ہمارے گھر بیٹھ کر کُچھ نہیں کہا بل کہ اُنھوں نے اپنے خاندان میں بیٹھ کر اپنا حال بیان کیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ اُن کا حق ہے کہ عام، مجبور، مظلوم اور مقہور کا جتنا خیال اُنھوں نے رکھا ہے ہم اُن کا مقام کم نہیں کر سکتے۔ وہ عام پاکستانی کے دل میں بستے ہیں، ان گنت ماؤں بیٹیوں اور بغیر کاغذات والوں کی دعاؤں میں شامل ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کو خوف سے نکال کر اظہار کی راہداریوں میں ڈالنے والے ہیں۔ اُن کی محنت کا بارسلونا ہی نہیں ہسپانیہ کا ہر چھوٹا بڑا شہر گواہ ہے اور شاید اسی ریاضت، فکر اور محنت کے سفر میں وہ خود کو اُس مقام پر بٹھا بیٹھے جو ایک شفیق باپ کا ہوتا ہے۔

اے گروہِ انس، باپ مانو یا نہ مانو، وہ ایک مُشفق دردِ دِل رکھنے والا انسان ہے جو خدا نے تُمھاری طرف بھیجا اور جس نے اپنے فرائض کا حق ادا کیا اور ایسا کہ تُم بولنے اور بات کرنے کے قابل ہوئے تو واجب ہے ایسے انسان کی قدر کی جائے۔

سارے خطاب میں ہم نے دو باتوں کا لُطف لیا۔ پہلی چوہدری صاحب کا برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ اور دوسری چوہدری ثاقب طاہر کو فون بند کرنے کی تاکید۔ قدیر خان صاحب سے ہلکا پُھلکا مزاق جب شروع تب نام نہادوں کی بساط اُلٹ چُکی تھی۔

نوٹ: ادارہ نیوز ڈپلومیسی کا لکھاری کی تحریر خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔

 

Comments are closed.