اسلام آباد:مودی کی قیادت میں بھارت ایک زعفرانی ریاست میں رنگ چکا ہے۔مودی کی زیرقیادت بھارت کے جمہوری ملک ہونے کے دعوے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے نقاب ہوچکے ہیں۔ بھارت کی نام نہاد جمہوریت کی موت کا مشاہدہ مقبوضہ جموں و کشمیرکے قتل گاہوں میں روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔بھارتی فوجیوں کے ہاتھوںکشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں نے بھارت کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت کا چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔بھارت کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے مطالبے کو وحشیانہ طاقت کے ذریعے کچل کر یہ ثابت کررہا ہے کہ بھارت ایک ڈھونگ اور شرمناک جمہوریت ہے۔بھارت اگر جمہوری اقدار پر یقین رکھتا تو وہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے مطالبے کے سامنے سرتسلیم خم کرلیتا لیکن بھارتی جمہوریت ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور کے مصداق جمہوریت کے لبادے میں ایک فسطائی اور بدترین آمریت ہے جہاں اختلاف رائے کو بدترین طاقت کے ذریعے کچلا جاتا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ان کا نہ صرف قتل عام کیا جاتا ہے بلکہ انہیں ان تمام مساوی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے جو بھارتی ہندئوں کو حاصل ہیں۔ مودی کا غرور بھارت کو بڑی سرعت کے ساتھ آمرانہ طرز حکمرانی کی طرف لے جا رہا ہے۔مودی کی ہندتوا پالیسیوں نے بھارت کی نام نہاد جمہوریت کو مزید تباہی سے دوچار کر دیا ہے۔مودی کا ہندوتوا پر مبنی ایجنڈا دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت ہے جس میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔مودی اور ان کے حواری بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے انتھک کوشش کر رہے ہیں،جس میں ہندوئوں کے علاوہ کسی اور کو جینا کا حق نہیں ہوگا۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اورسول سوسائٹی کے کارکن مودی کے بھارت میں بڑھتے ہوئے دباو کو نوٹ کر رہے ہیں۔صحافیوں کو ڈرانا اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف حملے بھارت میں معمول بن چکے ہیں۔
فسطائیت، اطالیہ میں بینیتو مسولینی کے ذریعہ منظم کی گئی تحریک ہے۔ اس کی ابتدا 1919 میں کی گی۔ یہ ایک انتہا پسند قوم پرستی کے نظریے پر مبنی ہے۔ یہ نظریہ نسلی برتری، آمریت، شدید قوم پرستی اور حصول مقاصد کیلئے جبر و تشدد کے استعمال سے عبارت سمجھی جاتی اور اشتراکیت وجمہوریت کی ضد قرار دی جاتی ہے۔دنیا میںحالیہ تاریخ میں چار فسطائی ریاستوں کا وجود پورے زور و شور سے رہا ہے ۔ان میں اٹلی، جرمنی، سپین، اور فرانس قابل ذکر ہیں۔ اٹلی میں فسطائیت کا دور 1921 سے 1945 تک رہا۔ اطالوی لیڈر مسولینی فسطائیت کا سرخیل تھا۔ جرمنی میں فسطائیت 1933 سے 1945 تک پورے جوبن پر رہی،وہاں فسطائیت کا لیڈر ایڈولف ہٹلر تھا۔ اسپین میں فسطائیت کا دور سب سے طویل تھا جو کہ 1936 سے 1975 تک قائم رہا۔ ان کا لیڈر فرانسسکو فرانکو تھا۔ پرتگال میں بھی 1939 تا 1974 فسطائی نظام حکومت قائم رہی اور اس کا لیڈر انتونیو سالازار تھا۔ بہت سے دوسرے ممالک میں بھی فسطائیت کا کسی نہ کسی شکل میں وجود رہا ہے جس کی سب سے واضح مثال جنگِ عظیم دوم کے دوران سامراجی جاپان تھا، 1945 سے 1955 کے عرصے میں ارجنٹائن میں فسطائی دور رہا تھا، اور اب بھارت میں بی جے پی فسطائیت کو پروان چڑھا رہی ہے۔ 1990 کی دہائی میں بھارت میں بی جے پی کی ایک فسطائی حکومت قائم تھی اور بعد ازاں 1998 سے 2004 تک بھی یہی فسطائی حکومت بھارت میں برسراقتدار رہی۔ اب جبکہ بھارت میں مودی کی زیر قیادت بی جے پی کی حکومت 2014 سے قائم ہے،سیاسی تجزیہ نگار اور ماہرین موجودہ بھارتی بی جے پی حکومت کے بارے میں بھی یہی عمومی رائے اور تاثر قائم کرچکے ہیں کہ بی جے پی بھی ایک فسطائی جماعت ہے اور یہ کہ 2014 کے بعد سے آج تک بھارت ایک فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہوچکا ہے۔فسطائیت کا ایک جزو جو بھارت میں بہت تواتر کے ساتھ دیکھنے میں آیا وہ ایک خاص قسم کی زبان کا استعمال تھا اور جوبھارتی ،ہندو، اورانڈین؛ ان تینوں مختلف الفاظ کو ہمیشہ ہم معنی قرار دیتا تھا۔
خود بھارت کی اپوزیشن جماعتیں برملا اس بات کا اظہار کررہی ہیں کہ اگر 2024 میں بھارت میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کا راستہ نہ روکا گیا تو بھارت کو مکمل طور پر آمریت اور فسطائیت میں تبدیل ہونے سے نہیں روکا جاسکتاکیونکہ بھارت کا حکمران طبقہ اس بات کا کھل کر اظہار کررہا ہے کہ 2024 میں انتخابات میں کامیابی کی صورت میں بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا اعلان ان کی ترجیحات میں شامل ہے اور یہ کہ 2024 کے انتخابات اسی نعرے پر لڑے جائینگے کہ بھارت کو رام راج میں تبدیل کرنا ہے۔بھارتی اقلیتوں پر مظالم اور مسلمانوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنانے پر مودی اور بی جے پی کی خاموشی اس بات کا مظہر ہیں کہ اس ساری صورتحال کے پیچھے اصل مقاصد ہیں کیا؟اس صورتحال کی جانب بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سابق سربراہ اور گاندھی پری وار کے سیاسی وارث راہول گاندھی نے بی جے پی کو اڑے ہاتھوں لیا ہے۔ راہل گاندھی نے 28فروری 3 202میں لندن کی کیمبرج یونیورسٹی میں آئیڈیاز فار انڈیا کانفرنس میں شرکت کے دوران اپنی گفتگو میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریہ پر سخت تنقید کی۔ راہل گاندھی نے کہا کہ کانگریس پہلے جیسا بھارت حاصل کرنا چاہتی ہے اور اس کیلئے کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ بی جے پی کانگریس اور اس کے لیڈران کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بی جے پی عوام کی آواز کو دباتی ہے، جبکہ ہم عوام کی آواز سننے کا کام کر رہے ہیں۔ بھارت دیکھ رہا ہے کہ ان اداروں پر حملے ہو رہے ہیں جنہوں نے بھارت تعمیر کیا،راہول گاندھی یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ان اداروں پر اب ڈیپ اسٹیٹ کا قبضہ ہے۔راہل گاندھی اسی پر نہیں رکے بلکہ یہ بھی کہا کہ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، ایک قومی نظریاتی جنگ۔ بی جے پی اور سنگھ پری وار بھارت کو ایک جغرافیہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
راہل گاندھی نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی حکومت میں روزگار میں کمی آئی ہے، اس کے باوجود یہ پولرائزیشن کی وجہ سے اقتدار میں ہے۔ آج بھارت کی حالت اچھی نہیں ہے۔ بی جے پی نے چاروں طرف کیروسین یعنی مٹی کا تیل چھڑک رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں ہمارے پاس ایک ایسا بھارت ہے جہاں مختلف خیالات کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور ہم بات چیت کر سکتے ہیں۔راہل گاندھی نے کیمبرج میں ایم بی اے کے طلبا سے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ دنیا بھر کے لوگوں کو 21ویں صدی میں نئے خدشات کو ہمدردی سے سننے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو کہ پیداوار کی وجہ سے جمہوری ممالک سے دور اور چین کی طرف منتقل ہونے سے تبدیل ہو گئی ہے۔ راہل گاندھی کیمبرج جج بزنس اسکول کے فیلوبھی ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ “ہم صرف ایک ایسے سیارے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو جمہوری نظام کے تحت پیدا نہ ہو۔لہذا ہمیں اس بارے میں نئی سوچ کی ضرورت ہے کہ آپ جبر کے ماحول کے مقابلے میں ایک جمہوری ماحول میں کیسے پیدا کرتے ہیں، اور اس بارے میں مذاکرات ضروری ہیں۔
راہول گاندھی نے اپنے خطابات اور بعدازاں پریس کانفرنس میں بھارت کی برسراقتدار بی جے پی حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے وہی باتیں کہیں ، جو کھلے طور پر پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ بار باریہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ بھارت میں جونفرت، تشدد، عدم رواداری ، ظلم و بربریت ، آئینی اور انسانی حقوق کی پامالی ، مذہب کے نام پر فرقہ واریت ، آزادی اظہار پر پابندی ، جمہوریت کی پامالی ، بڑھتی فسطائیت وآمریت ،عدلیہ ، سی بی آئی ،این آئی اے، ای ڈی ، انکم ٹیکس ، الیکشن کمیشن وغیرہ جیسے اہم جمہوری اداروں پر بڑھتی گرفت ، گرتی معیشت ، بدعنوانی کے بڑھتے گراف ، حکومت سے سوال کرنے پر جھوٹے الزامات کے تحت گرفتاریاں، تنقید کئے جانے پر بلڈوزر کی کارروائی، مآب لنچنگ ، لو جہاد ، دھرم سنسدوں میں اشتعال انگیز بیانات ، قاتلوں اور زانیوں کیلئے ہمدردی وغیرہ جیسے سانحات اورواقعات جو مودی حکومت کی سرپرستی میں انجام دیے جا رہے ہیں ۔ لیکن بھارت میں اقتدار کے نشہ میں کوئی بھی ان باتوں کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے اور بے وقوفوں کی جنت میں رہنے والے یہ لوگ ایسا لگتا ہے کہ دسویں یا بارہویں صدی میںجی رہے ہیں کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ اس وقت بھارت میں ہو رہا ہے ، وہ سب بھارت کے در و دیوار کے باہر نہیں پہنچ رہا ہے ۔ اس دور جدید میں دنیا اب گلوبل ولیج میں تبدیل ہو چکی ہے اور کسی بھی سانحہ ، واقعہ یا حادثہ کی خبر پل بھر میں بازگشت کرنے لگتی ہے ۔ اگر مودی حکومت کو بیرون ممالک میں بھارت کی شبیہ کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ ایسے تمام غیر آئینی، غیر انسانی سانحات اور واقعات پر پابندی لگائے،جن میں بی جے پی براہ راست ملوث ہے۔ انگریزوں کے تسلط سے بھارت کو آزاد کرانے میں جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں ، ان قربانیوں میں اگر بی جے پی کی تھوڑی بھی حصہ داری ہوتی تو وہ بھارت کی سا لمیت کی اہمیت کو سمجھتی ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس مودی حکومت سے سوال کرنے والے کو غدارقرار دینے میں تاخیر نہیں کرتیں۔2014 میں بھارت میں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے شہری آزادیوں میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے۔مودی کی قیادت میں بھارت میں نسل پرستانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے سے روکنے کیلئے دنیا کو آگے آکر اپنا کردار ادا کرناچاہیے،ورنہ بہت دیر ہوجائے گی جس کے بعد افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
Comments are closed.