جناب اسماعیل ہنیہ

تحریر: محمد شہباز

نام اسماعیل ہو اور اللہ کی راہ میں قربان نہ ہوں،ایسا ممکن نہ تھا۔31جوالائی کے پچھلے پہر جب رات کے دو بج چکے تھے قبلہ اول کے پہرے دار اپنے وطن اور سرزمین سے دور بقول شاعر مشرق علامہ اقبال ایران صغیر کے دارالحکومت تہران میں میزائل حملے میں اپنے رب سے جاملے۔ان اللہ و ان الیہ راجعون

مزاحمت کا استعارہ ،علمبردار اور دنیا بھر میں مزاحتمی تحریکیوں کی شناخت جناب اسماعیل ہنیہ شہادت سے سرفراز ہوئے تو مسلم دنیا نے بڑی شدت کیساتھ محسوس کیا کہ جیسے اپنا کوئی قریبی عزیز داغ مفارقت دیکر چلا گیا ہے۔وہ بے یارو مدد گار مگر جدوجہد اور شوق شہادت سے سرشار اہل فلسطین کا چہرہ تھے۔انہوں نے نہ دن دیکھا نہ رات۔وہ ایک مجاہد بھی تھے،تو ایک زیر ک سفارتکار بھی۔وہ  07اکتوبر 2023 سے مسلسل کبھی ایک ملک تو کبھی دوسرے ملک میں ہوتے ۔ان کے چہرے پر تھکان دیکھی گئی اور نہ ہی باڈی لنگویج سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی دباو کے شکار ہیں۔اغیار نے ان پر دبائو ڈالنے کا ہر حربہ اور ہتھکنڈہ آزمایا لیکن یہ مرد حر ہر آزمائش میں پورا اور کھرا اترا۔اپنے خاندان کی تین نسلیں مسجد اقصی قبلہ اول کی  حرمت پر قربان کیں،70سے زائد خاندان کے افراد اب تک جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔جن میں وہ خود ،بیٹے،بہو،پوتے پوتیاں،نواسے ،نواسیاں اور بہنیں بھی شامل ہیں۔یوں بلاشبہ واقعہ کربلا کی تاریخ دوہرائی ہے جہاں خانوادہ رسول ۖکے72 نفوس نے امام عالی مقام سید نا امام حسین کی سربراہی میں اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔بلاشبہ قربانیاں دینے والے ہی نہ صرف تاریخ میں امر ہوتے ہیں بلکہ تاریخ ان کی اسیربن جاتی ہے۔اپنے وطن ،قوم اور قبلہ اول سے محبت جناب اسماعیل ہنیہ کی رگ رگ میں رچی بسی تھی،بلکہ مسجد اقصی ان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑ رہی تھی۔جس کا اظہار ان کی ایک مختصر تقریر سے ہوتا ہے،جس میں وہ مسجد اقصی کی یہود و ہنود کے پنجہ استبداد سے آزادی کیلئے اپنے اہل و عیال اور خود بھی قربان ہونے کا اعلان کرتے ہیں اورپھر وقت نے انہیں درست ثابت کیاکہ انہوں نے جو کچھ کہا وہ اپنے عمل سے سچ کردکھایا۔وہ کردار کا غازی تھا ہی ،البتہ راتوں کو اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا بھی کرتے تھے۔وہ اللہ کی دامن رحمت سے کسی صورت غافل نہیں تھے۔ان کی قوم پر قیامت برپا کی گئی لیکن نہ قوم اور نہ ہی ان کی زبان پر کبھی کسی کمزوری کا اظہار کیا گیا ۔غزہ کے ہسپتالوں میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے والے امریکی ڈاکٹروں نے گواہی دی ہے کہ اسرائیلی حملوں میں چالیس ہزار نہیں بلکہ 93000 فلسطینی شہید کیے جاچکے ہیں ۔عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ کے ادارے بھی اس بات کی گواہی دے چکے ہیں کہ اہلیان غزہ کی نسل کشی کی جاتی ہے اور ان پر بھوک اور پیاس بھی مسلط کی گئی ہے۔البتہ جناب اسماعیل ہنیہ اپنی مظلوم قوم کی ترجمانی کا فریضہ انجام دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ان کے بس میں جو کچھ تھا وہ کیا اور پھر اپنی متاع عزیز بھی اسی راہ میں قربان کرکے یہ اعلان کیا

اے مرے دوست ! ذرا دیکھ میں ہارا تو نہیں

میرا سر تو بھی پڑا ہے مری دستار کے ساتھ

وہ اپنی قوم کی نیا کو ہر حال میں پار لگانا چاہتے تھے سو انہوں نے اپنی محکوم قوم کو کسی لمحے مایوس اور دل برداشتہ نہیں کیا۔قوم کو بھی ان پر غیر متزلزل اعتماد اور یقین تھا۔اسی یقین و اعتماد نے انہیں ہمالیہ سے بھی زیادہ بلند حوصلہ عطا کیا۔وہ چاہتا تو دیار غیر میں بھی اپنے اہل و عیال کی پرورش کرتے،وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل تھے لیکن ان کے جسم کے انگ انگ میں بیت المقدس کی آزادی انگڑائی لیتی تھی،جو انہیں سکھ اور چین نہیں لینے دیتی تھی۔اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ 1962 میں مصر کیساتھ ملحقہ مقبوضہ غزہ پٹی کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے ،جہاں ان کے والد محترم مسجد کے موذن تھے۔1987 کے اوائل میں باضابطہ طور پر تحریک مزاحمت حماس کیساتھ وابستہ ہوئے۔1988 میں حماس کے غزہ میں ایک اہم مزاحمتی تحریک کے طور پر سامنے آنے کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ جس کے بعد انہیں حماس کے رہنماوں کے ایک گروپ کیساتھ لبنان جلاوطن کیا گیا، جہاں انھوں نے   پورا ایک برس جلاوطنی میں گزارااور پھر دوبارہ اپنے وطن واپس آگئے۔1997 میں انہیں تنظیم کے بانی جناب شیخ احمد یاسین کیساتھ منسلک کرکے دفتر کا سربراہ نامزد کیا گیا۔دفتر پر پر صہیونی حملے سے قبل وہ اپنے روحانی پیشوا شیخ احمد یاسین کیساتھ نکل چکے تھے۔وہ جناب شیخ کی وہیل چیئر بھی خود ہی چلایا کرتے تھے۔2007 میں غزہ میں انتخابات میں حماس کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم کے بطور ان کا انتخاب عمل میں لایا گیا،2014 تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔2017 میں انہیں خالد مشعال کی جگہ حماس کا سیاسی  سربراہ منتخب کیا گیا اور پھر 31جوالائی 2024 تک یہ فرائض انجام دیتے دیتے اپنی جان سے بھی گزر گئے۔

اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ کی کتاب میں سمجھوتہ نام کا کوئی سبق نہیں تھا ۔وہ دشمن کیلئے جہاں فولاد سے زیادہ سخت تو وہیں اپنوں کیلئے رحیم و شفیق بھی تھے۔وہ اپنوں سے جب بھی ملے تو چہرے پر مسکراہٹ ملنے والوں کو ان کا اسیر بنادیتی۔انہوں نے اپنی قوم کو کسی موقع پر مایوس نہیں کیا۔وہ ایک ایک لمحے کی خبر رکھتے تھے،وہ اپنے نائبین سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ان کی تنظیم کے لوگ بھی ان پر ہر وقت جان کی بازی لگانے کیلئے تیار رہتے تھے۔وہ نڈر،دلیری اور بے باکی میں اپنی مثال آپ تھے ۔کسی لمحے پر بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔یہی ان کا بڑا وصف تھا۔جس نے دوسروں میں انہیں ممتازمقام عطا کیا۔اس نے کبھی عہدوں کی خواہش نہیں کی لیکن جب بھی ان کے کندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی تو پھر اس مرد مجاہد نے پیچھے مڑھ کر نہیں دیکھا۔ان کی زندگی جہد مسلسل تھی ۔وہ کبھی ترکیہ،مصر،قطر اور ایران کے سفر پر ہوتے۔بس مشن ایک ہی تھا۔سرزمین فلسطین کی صہیونی قبضے سے آزادی۔وہ اپنی قوم کا معمار تھا۔سو وہ چھپا نہیں بلکہ سینہ تان کے کھڑا رہا۔انہوں نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔اپنے بیٹوں،پوتے پوتیوں،بہو اور بہن کی شہادت پر کوئی ماتم نہیں بلکہ اپنی اولعزم اہلیہ کیساتھ جو اس وقت ہسپتال میں بیڈ پر بیمار پڑی تھیں اللہ کا شکر بجالایا اور وکٹری کا نشان بناکر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کی مسلمان شہادتوں سے گھبراتے نہیں بلکہ ان شہادتوں میں کامیابی و کامرانی اور فتح تلاش کرتے ہیں۔اور پھر جب وہ خود بھی اللہ کی راہ میں کام آئے تو ان کی اہلیہ ،بیٹیوں اور بہو نے جس ثبات کا مظاہرہ کیا ہے وہ رہتی دنیا تک اہل مزاحمت کیلئے مشعل راہ ہیں۔جناب اسماعیل ہنیہ ایران کی سرکاری دعوت پر ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برادری میں مدعو تھے اور پھر تہران میں 31جوالائی کو ان کی شہادت کی صورت میں جدائی کا واقعہ رونما ہوا۔یکم اگست کی صبح ان کی نما ز جنازہ میں پورا تہران امڈ آیا ۔تہران کی سڑکیں،گلی کوچے،بازار ،میدان ،پارکیں مردو خواتین سے اٹی پڑی تھیں۔عالمی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ لاکھوں مردو خواتین جنازے میں شریک تھے۔دوسرے دن قطر کے دارالحکومت  دوحہ میں امام محمد بن عبدالوہاب کی مسجد میں ان کی دوبارہ نماز جنازہ ادا کی گی،مسجد کے اندر اور صحن میں سر ہی سر نظر آرہے تھے،جن میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی،وزیر خارجہ ترکیہ اور اسلامی تحریکوں کی دیگر شخصیات نے بھی شریک تھیں۔سوشل میڈیا پر اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ میں شریک امیر قطر کی ایک تصویر وائرل ہوچکی ہے جس میں انہوں نے اپنے سر پر روایتی عرب عقال نہیں پہنا ہوا تھا۔عرب میڈیا کے مطابق عرب روایات میں اگر کوئی سوگوار شخص جنازے کے دوران سر سے عقال اتار دے تو اس کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ اس انتقال کو اپنا ذاتی نقصان سمجھتا ہے۔بعدازاں انہیں اسلامی دنیا کی عظیم علمی شخصیت امام یوسف القرضاوی کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ،جس کی جناب ہنیہ نے پہلے ہی وصیت کررکھی تھی۔مشہور محدث امام احمد بن حنبل کا مشہور قول ہے ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا۔اس کے علاوہ دنیا بھر میں جناب ہنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جبکہ پاکستان میں سرکاری سطح پر یوم سوگ منایا گیا اور پاکستانی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر ایک قرارداد بھی منظور کی گئی ،جس میں جناب اسماعیل ہنیہ اور شہدائے فلسطین کو شاندار خراج عقیدت اور صہیونی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے اہل فلسطین کو یقین دلایا گیا کہ قبلہ اول کی آزادی تک ان کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔جناب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کو پوری مسلم امہ نے  محسوس کیا ہے کیونکہ ان کی پوری زندگی فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے ہی گزری ہے۔

حماس کے آغاز کی اکیسویں سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں انھوں نے کہا تھا

ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی سے پیار کرتے ہیں۔

جناب اسماعیل ہنیہ کو بہو ایناس ہنیہ جو خود ایک شہید کی بیوہ اور دو شہید بچیوں کی ماں ہے۔نے اپنے سسر کو کچھ یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے ”ہم مطمئن دلوں کیساتھ اللہ کی رضا اور تقدیر پر راضی ہیں۔ میں ایسی شخصیت کیلئے تعزیت کا اظہار کر رہی ہوں جس نے اپنے آزاد فلسطین کے نظریے کی خوشبو کیساتھ آسمان وزمین کو بھر دیا تھا۔ وہ ایسی شخصیت ہیں جنہیں تعریف کی ضرورت نہیں۔ میں اپنے پیارے چچا کیلئے تعزیت کا اظہار کرتی ہوں جو مجھے بے حد پیارے تھے۔ وہ میرے والد تھے۔ وہ میرے سر کا تاج تھے۔ وہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ اب وہ ایسے شہید مجاہدین سے ملیں گے جو صادقین تھے برکتوں والے تھے۔ وہ اب اپنے شہید بیٹوں سے ملاقات کریں گے۔ اپنے پاکیزہ خونِ شہادت کیساتھ ملاقات کریں گے۔ وہ شہادت کے علمبردار لیڈر تھے۔ ایک بڑے اور بہادر رہنما تھے۔ ”ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے۔ یہ رسول اکرمۖ کا اپنے بیٹے حضرت ابراہیم کی وفات پر فرمایا گیا جملہ ہے ہم بھی اسی فرمان کو سامنے رکھ کر کہتے ہیں) آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ اے ابو العبد (اسماعیل ہنیہ) دل تمہاری جدائی سے دکھی ہو گیا ہے۔ ہمارا رب ہم لوگوں کو ہماری مصیبت پر اجر عطا فرمائے۔ بہتر حالات عطا فرمائے۔ درد بہت بڑا ہے مگر اطمینان اس لیے ہے کہ یہ دنیا چند روز کا کھیل ہے لہذا جنت میں ان شا اللہ ملاقات ہو گی۔ وہ جنت کہ جس کی وسعت تمام آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ ہے۔ ہم فلسطینیوں کے رہنما کو الوداع کہتے ہیں۔ ہم امت کے قائد کو الوداع کہتے ہیں۔

کیا ایسے پرعزم اور پریقین لوگوں کو نتین یاہو جیسا سفاک اور درندہ صفت شکست یا ہرا سکتا ہے؟

شاعر مشرق علامہ اقبال کی اپنی والدہ کی جدائی پر لکھی گئی نظم کے دو آخری اشعار

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Comments are closed.