غنڈہ اسرائیل اور مردہ اقوام متحدہ

تحریر: محمد شہباز

مشرق وسطی اس وقت اسرائیلی بربریت اور درندگی کی زد میں ہے اور آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں۔یہ وہ آگ ہے جو عالمی امن کے ٹھکیداروں بالخصوص امریکہ اور برطانیہ نے 78 برس قبل سرزمین فلسطین پر ایک ناپاک اور نجس اسرائیل کے قیام کی شکل میں بھڑکائی ہے اور اب یہ آگ آہستہ آہستہ پورے مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔07اکتوبر 2023میں حماس کی جانب سے طوفان القصی کوئی علی الاٹپ اقدام نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ناجائز اسرائیل کی برسوں پر محیط اہل غزہ کو محصور اور انہیں دانے دانے کا محتاج بنانے کی سفاکانہ اور مذموم کاروائیاں کارفرما تھیں جس کا اظہار اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی کیا تھا۔سات اکتوبر سے لیکر آج کے دن تک اسرائیل نے پورے فلسطین میں قتل عام کی صورت میں نسل کشی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ،اس کا دائرہ اب لبنان،شام ،یمن ‘ عراق اور دوسرے ممالک تک پہنچ چکا ہے اور اب توانسانیت کے قاتل نتین یاہو نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ مشرق وسطی کا کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں اسرائیل نہیں پہنچ سکتا ہو۔ انسانیت کے اس قاتل کو اپنے آقا امریکہ جو خود کو انسانیت اور انسانی حقوق کا علمبردار گرداننے میں کوئی شرم وحیا اور عار محسوس نہیں کرتا نہ صرف بھرپور مدد و اعانت حاصل ہے بلکہ اس نے مشرق وسطی میں اپنے بحری بیڑے کیساتھ ہزاروں فوجی بھی تعینات کیے ہیں،جس کا مقصد اپنے ناجائز بچے کاتحفظ کرنا اور اس کیلئے اگر پوری دنیا کو بھی نیست و نابود کرنا پڑے تو شاید یہ اس بہادر کیلئے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔

27 اور 28 ستمبر کی درمیانی رات کو بیروت میں لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے ہیڈ کوارٹر پر اسرائیل نے یکے بعد دیگرے متعدد حملے کیے،جس کے نتیجے میں حزب اللہ کے سربراہ شیخ حسن نصراللہ اور ان کی بیٹی زینب نصر اللہ سمیت بیس سے زائد افراد شہید اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ان حملوں میں امریکی ساختہ بم استعمال کیے گئے ،جن کا وزن دو ہزار پونڈ کے لگ بھگ ہے اور اس کا اعتراف امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی فضائی امور کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین مارک کیلی نے این بی سی کو انٹرویو کے دوران کیا ہے کہ اسرائیل نے 27ستمبر کو بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو مارنے کیلئے جو بم استعمال کیا وہ امریکی ساختہ گائیڈڈ بم تھا۔مارک کیلی نے مزید کہا کہ اسرائیل نے کیلی 84 بم استعمال کیا جس کا وزن 2000 پاونڈ یا 900 کلو گرام تھا۔ لبنان میں اسرائیلی حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے بارے میں یہ پہلا امریکی بیان تھا۔ اسرائیل نے حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کو ظاہر کرنے سے انکار کیا تھا۔جبکہ امریکی پینٹاگون نے ابھی تک مارک کیلی کے بیانات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔جبکہ امریکی صدر نے سید حسن نصر اللہ کے قتل کو انصاف پر مبنی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کو حق دفاع حاصل ہے جس کی امریکہ حمایت کرتا ہے۔جس سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکہ عربوں کے قتل عام کو جائز ٹھراتا ہے۔اس واضح اور کھلی امریکی حمایت کی شہ پر ہی اسرائیل نے لبنان میں اب زمینی کاروائی بھی شروع کی اور لبنان کی بستیوں کو فوجی چھاونیاں قرار دیا جاچکا ہے۔

اس سے قبل 30ستمبر کو لبنان،شام ،عراق ،یمن اور غزہ میں اسرائیل نے ایک ساتھ حملے کرکے درجنوں افراد شہید اور سینکڑوں زخمی کیے۔پوری دنیا اس ننگی بربریت اور ریاستی دہشت گردی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،جس کا سادہ الفاظ میں مطلب اسرائیلی حمایت سمجھی جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب نشانہ مسلمان ہوں اور مارنے والا یہودی دہشت گرد ہو تو نہ کوئی نوٹس لینے والا ہے اور نہ اس قتل عام پر کوئی شور وغوغا ہے۔ایک ایک کرکے مسلمان نشانہ بن رہے ہیں۔جس کا آغاز 09/11کے بعد کیا گیا۔جب دہشت گردی کے نام پر افغانستان کو تختہ و تاراج کرکے لاکھوں افغانوں کا خون بہایا گیا ۔پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار weapon of mass destruction کے نام پر عراق کی خود مختاری اور سالمیت کو ملیا میٹ کرکے لاکھوں لوگوں کا خون بہایا گیا۔اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ شام اور لیبیا میں بھی لاکھوں لوگوں کا خون اس نام پر بہایا گیا کہ عوام کو آمریت سے نجات دالاکر انہیں جمہوری حقوق فراہم کرنے ہیں۔کرنل معمر قذافی کو جس بیدردی اور بے رحمی سے قتل کروایا گیا وہ بھی امریکی تاریخ کے ماتھے پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے ،جس سے کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا۔ حالانکہ عراق پر حملے کے کئی برس بعد سابق امریکی وزیر خارجہ انجہانی کولن پاول نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ weapon of mass destruction کے نام پر اقوام متحدہ میں ان سے جھوٹ بلوایاگیا جو اس کے دامن پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔

اب ایران کو گھیرنے کی تیاری کی جاچکی ہے اور اس کیلئے حالات کو بڑی تیزی کیساتھ جنگ کی طرف لے جایا جارہا ہے ۔رواں برس 31جولائی کو تہران میں حماس کے سربراہ سید اسماعیل ہانیہ کی شہادت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور اب حزب اللہ کے سربراہ کا قتل بھی پورے خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکانے کیلئے کیا گیا ہے۔ 2006 میں بھی اسرائیل نے لبنان پر حملہ کرکے اس سے زمین بوس کیا تھا اور پھر اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ Condoleezza Rice نے کہا تھا کہ ایک نیا مشرق وسطی جنم لے رہا ہے۔لیکن اس سے ذلت و رسوائی کے سواکچھ حاصل نہیں ہوا اور اسرائیل کو بدترین ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔

یہ تمام حالات و واقعات اس بات کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ تیسری عالمی دروازے پر جنگ دستک دے رہی ہے کیونکہ اسرائیل تمام عرب ممالک کو ہڑپنے کا منصوبہ بناچکا ہے جس سے گریٹر اسرائیل کا منصوبہ بتایا جاتا ہے۔ان حالات میں جب اسرائیل کو تمام بڑے ممالک کی نہ صرف حمایت حاصل ہے بلکہ اہل فلسطین ،لبنان اور دوسرے مسلمان ممالک کے خلاف اسرائیل جو مہلک ہتھیار استعمال کررہا ہے وہ بھی انہی ممالک کے تیار کردہ ہیں۔ایسے میں مسلم ممالک خود کو اس جنگ کیلئے تیار کریں جو آج نہیں تو کل ہر حال میں انہیں لڑنی ہے۔اس سلسلے میں مملکت خداداد پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے 27 ستمبر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 79 اجلاس سے ایک مدلل اور پر مغز خطاب کیا ہے۔میاں شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہاہے کہ غزہ ہو یا مقبوضہ جموں و کشمیر کہیں بھی غیر انسانی سلوک اور انسانیت سوز مظالم برداشت نہیں کیے جاسکتے۔ غزہ میں محض لڑائی نہیں ہو رہی، بے گناہ فلسطینیوں کو منظم طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے حوالے سے پاکستان کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے میاں شہبا ز شریف نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی شدیدمذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے انسانیت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور یہ کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو طول دینے والوں کے ہاتھ بھی خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ فلسطینی بچے ذبح ہورہے ہیں اور دنیا نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے یہ بھی کہاکہ جموں و کشمیر کے عوام طویل عرصے سے اپنا ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں، جس کا وعدہ عالمی برادری نے ان سے کیاہے۔ مسئلہ کشمیر آج بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زوردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جموں و کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور پاکستان آج بھی اس عزم پر قائم ہے ۔اج مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال انتہائی کشیدہ اور سنگین ہے۔ کشمیری عوام پر ان کی اپنی زمین تنگ کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں غیر ریاستی افراد کو زمینیں دے کر آباد کیا جارہا ہے۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مذموم کوششیں کر رہی ہے۔05 اگست2019میں بھارت نے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے بھارتی حکمرانوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔ غیر معمولی انسانیت سوز مظالم جھیلنے کے باوجود اہل کشمیرکے حوصلے بلند ہیں ۔تمام تر بھارتی مظالم کے باوجود کشمیری نوجوان شہیدبرہان وانی کی میراث پر عمل پیرا ہیں ۔میاں شہباز شریف نے کہا کہ لاکھوں بھارتی فوجی جموں وکشمیر کے عوام پر دہشت مسلط کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا فیصلہ کن جواب دے گا کیونکہ پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگاکر کارروائی کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔

وزیر اعظم پاکستان نے ایک ایسے موقع پر درست نشاندہی کی ہے جب اسرایئل ایک بے لگام گھوڑے کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔اقوام متحدہ عملا ایک ناکام اور ناکارہ ادراہ بن چکا ہے اور یہ اسوقت عضو معطل ہے کیونکہ اسرائیل نہ تو ادراے کی قراردادوں کو کسی خاطر میں لارہا ہے اور نہ ہی عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو کوئی وقعت دے رہا ہے جبکہ بھارت بھی مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدر آمد کیلئے نہ تو آمادہ ہے اور نہ ہی ان قراردادوں کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ایسے میں اقوام متحدہ بھی لیگ آف نیشنز کا عملی روپ دھار چکا ہے جس کا مطلب خاتمہ ہے اور عملا یہ ادارہ اب اپنی موت کی جانب گامزن ہے ۔

Comments are closed.