مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی اسمبلی کیلئے کرائے جانے والے انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور سیاسی پنڈت جس بات کی بار بار پیشنگوئی کررہے تھے،وہ درست ثابت ہوئی ہے ،مودی کی بی جے پی انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئی ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکا ہے جبکہ ریاست کی سابقہ وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی جماعت بھی چند ایک سیٹوں تک محدود رہ گئی ہے ۔انجینئر رشید کا پتہ بھی صاف ہوگیا ۔اس کے علاوہ سجاد لون ، جماعت ا سلامی کے نام پر پینل اور کل جماعتی حریت کانفرنس کیساتھ وابستگی رکھنے والوں کے بچے اور دوسرے رشتہ دار بھی کلین بولڈ ہوگئے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں یہ انتخابات 2018 کے بعد باالعموم اور 05 اگست2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور پھر ریاست کو مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیر اور لداخ میں تقسیم کرنے کے بعد بالخصوص منعقد کیے گئے۔چونکہ مودی اور بی جے پی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق حامل آرٹیکل370 اور 35 اے کو ختم کرتے وقت یہ دعوی کیا تھا کہ اس اقدام سے ایک نیا کشمیر کی بنیاد رکھی گئی ہے اور ریاست پر صدیوں سے مسلط عبداللہ اور مفتی خاندانوں کی چوہدراہٹ کا خاتمہ ہوگا۔البتہ مودی کے دعوئوں اور وعدوں میں کوئی مماثلت نہیں تھی بلکہ قدم قدم پر تضاد ہی پایا گیا۔ کشمیری عوا م کو نہ صرف تمام شعبہ ہائے زندگی میں محتاج بنایا گیا بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نت نئے قوانین کا نفاذ عمل میں لاکر مسلم اکثریت کو ہندو اقلیت میں تبدیل کرنے کا راستہ ہموارکیا جارہا ہے۔05 اگست 2019 کے بعددرجنوں کشمیری مسلمان سرکاری ملازمین کو تحریک آزادی کیساتھ وابستگی کے الزام میں ان کی نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔سینکڑوں لوگوں کی جائیداد واملاک اور رہائشی مکانات پر قبضہ کیا گیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔غرضیکہ اہل کشمیر کو دیوار کیساتھ لگایا گیا۔ان حالات میں بھارتی الیکشن کمیشن نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 18 و 25ستمبر اور یکم اکتوبر کو تین مراحل پر مشتمل انتخابات کا انعقاد کرایا ۔آج گنتی کرائی گئی اور نیشنل کانفرنس و کانگریس نے واضح برتری حاصل کی ہے۔90 سیٹوں میں سے مذکورہ اتحاد کو 52 سیٹیوں پر برتری حاصل ہے جبکہ BJP یہ انتخابات ہار گئی ہے۔حالانکہ بی جے پی نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں انتخابات جیتنے کیلئے بڑے پاپڑ بیلے۔پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں حلقہ بندیوں کے نام پر انتخابات سے پہلے دھاندلی کرائی گئی،جس کا مقصد صرف اور صرف بی جے پی کو فائدہ پہنچانا تھا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جاعتوں نے حلقہ بندیوں کے اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔بعض جماعتوں نے تو حلقہ بندیوں کے قیام کیلئے کمیشن کیساتھ تعاون بھی نہیں کیا تھا ،چونکہ بی جے پی ہر حال میں یہ انتخابات جیتنا چاہتی تھی سو اس نے صحیح اور غلط کے تصور کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کیے مگر بی جے پی کی ہر تدبیر الٹی پڑگئی۔
بھارت نواز جماعتیں شروع دن سے بی جے پی کو انتخابات میں سبق سکھانے کا نعرہ لگاتی رہیں۔اس کیلئے شروع میں گپکار الائنس کے نام سے اتحاد تشکیل پایا گیا،جس میں بی جے پی کے علاوہ تمام جماعتوں کو شامل کیا گیا۔بعدازاں کچھ جماعتیں اس اتحاد سے نکل گئیں البتہ محبوبہ مفتی کی PDP کو رواں برس مئی میں بھارتی پارلیمانی انتخابات کے موقع پر نیشنل کانفرنس کے اعتراض پر مذکورہ اتحاد سے نکال باہر کیا گیا اور پھر ریاستی اسمبلی انتخابات میں بھی PDP کو ساتھ نہیں رکھا گیا،صرف نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا اتحاد ہی روبہ عمل لایا گیا تھا۔اس کیلئے بھارتی کانگریس رہنما راہول گاندھی کو سرینگر میں فاروق عبداللہ کیساتھ ملاقات کرکے انتخابی اتحاد کی اس بیل کو منڈے چڑھانا پڑا۔یہ اس اتحاد کا ہی نتیجہ ہے کہ اس سے بڑے پیمانے پر بی جے پی پر برتری ملی ہے۔چونکہ اہل کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور پانچ برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اہل کشمیر مودی کے اس اقدام کو بھولے نہیں ہیں۔پورے مقبوضہ جموں و کشمیر میں صرف جموں شہر اور کچھ ایک اضلاع جہاں ہندئوں کی اکژیت ہے ،بی جے پی کو ہندو ہونے کی بنیاد پر حمایت حاصل ہے ۔حالانکہ بھارتی پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو مقبوضہ وادی کشمیر سے انتخابی امیدوار تک نہیں ملا۔جس کا سدباب کرنے کیلئے بی جے پی نے انجینئر رشید کو تہاڑ جیل سے رہا کیا تاکہ ان کے ذریعے مقامی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو تقسیم کرایا جاتا۔مگر یہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا،انجینئر رشید جس سے ان کی غیر موجودگی میں شمالی کشمیر کے لوگوں نے بھارتی پارلیمانی انتخابات میں عمر عبداللہ کے مقابلے میں بڑے مارجن سے جتایا تھا کو بی جے پی ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی تھی مگر انجینئر رشید ،جس سے بھارت نواز حلقوں نے الزامات کی بوچھاڑ پر رکھا اور یوں اس مردہ گھوڑے میں بی جے پی جاں نہیں ڈلواسکی۔ریاستی اسمبلی انتخابات سے قبل ہی کشمیری عوام میڈیا کیساتھ بات چیت میں انجینئر رشید سے لاتعلقی کرتے دیکھائی دیئے اور یوں BJPکی جانب سے ہوا ئی قلعے تعمیر کرانے کا خواب چکنا چور اور کرچی کرچی ہوگیا۔
انجینئر رشید کے علاہ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں وکشمیر جس پر فروری 2019میں بھارتی وزارت داخلہ کی جانب سے پانچ سالہ پابندی عائد کی گئی اور بھارتی حکومت کے قائم کردہ ٹریبونل نے گزشتہ ماہ ہی اس پابندی کو برقرار رکھا ۔جماعت اسلامی کے روز مرہ معاملات چلانے کیلئے تشکیل دیا گیا پینل جماعت اسلامی کے نام پر الیکشن میں نہ صرف کود پڑا بلکہ پینل امیدواراں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آتے رہے ،جس سے یہ گمان گزر گیا کہ وہ بھارتی وزارت داخلہ کے پیرول پر تھے۔گو کہ بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی نے ان انتخابات سے خود کو دور رکھا اورنوبت یہاں تک آن پہنچی کہ پینل کے تین اہم عہدیداروں غلام قادر وانی ،غلام قادر لون اور احمد اللہ پرے کو جماعت اسلامی کی بنیادی رکینت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔پینل کے پلے کچھ نہیں پڑا اور نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم کے مصداق اب ان افرادکو پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔کچھ اور لوگ جو کل جماعتی حریت کانفرنس کیساتھ بھی خود کو نتھی کیے ہوئے ہیں ان کے بیٹے اور بھائی بھی ان بھارتی انتخابات میں بنفس نفیس شریک تھے اور پھر طرح طرح کی تاویلیں پیش کررہے ہیں۔ان افراد کو اب تطہیری عمل سے گزارنا ناگزیر ہے ورنہ یہ ناسور بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔پوری آزادی پسند قیادت بشمول خواتین اور ہزاروں کشمیری نوجوان بھارتی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے آزادی پسند قائدین شبیر احمد شاہ،محمد یاسین ملک،مسرت عالم بٹ اور نعیم احمد خان کی جانب سے ریاستی اسمبلی انتخابات سے اعلان برات کے بیانات متواتر جاری ہوتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ اہل کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی میں دی جانے والی قربانیوں کیساتھ وفا نبھانے کی تلقین بھی کی جاتی رہی۔خود میر واعظ عمرفاروق جو 05 اگست 2019 میں غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات سے ایک روز پہلے ہی اپنی رہائش گاہ پر خانہ نظر بند کیے گئے تھے،طویل عرصے تک مقید رکھے گئے ،نے حال ہی میں جامع مسجد سرینگر میں نما ز جمعہ کے ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والے انتخابات کو مسئلہ کشمیر کے حل سے جوڑنا کسی طور جائز اور درست نہیں ہے کیونکہ انتخابات کشمیری عوام کے جذبات اور امنگوں کی نمائندگی نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ جموں وکشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں نے نام نہاد انتخابات کے موقع پر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کیا اور اجتماعی مفاد پر ذاتی اور جماعتی مفادات کو ترجیح دی جس کی وجہ سے متوقع چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ان کیلئے آسان نہیں ہو گا،کیونکہ جموں وکشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے میں ایسے قوانین لائے جا رہے ہیں جن سے یہاں کے عوام کی مذہبی آزادی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ تنظیم نو ایکٹ کے نفاذ کے بعد مقبوضہ علاقے کے عوام خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں ، انکے اختیارات کو سلب کیا گیا ہے۔ زمینوں ، نوکریوں، املاک اور انکے وسائل کو چھینا جارہا ہے جس سے خوف ودہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے اورلوگ بات کرنے سے بھی ڈر محسوس کررہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے ، میر واعظ نے کہا کہ گو کہ کل جماعتی کانفرنس کا تنظیمی ڈھانچہ بکھر چکا ہے مگر وہ آج بھی کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہے اور ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے اور یہ ہماری کمزور ی نہیں بلکہ ہمارا ایک اٹل اور واضح موقف ہے۔بلاشبہ میرواعظ نے ان لوگوں کو آئینہ دکھایا ہے جو تحریک آزادی کیساتھ وابستہ ہوکر بھی بھارتی جمہوریت کا راگ آلاپ رہے ہیں اور ان کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے۔
یہ بات کسی شک وشبہ سے بالاتر اور ڈنکے کی چوٹ پر کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کرکے نہ صرف ریاست کے حصے بخرے کیے بلکہ اپنے اسی ماورائے آئین اقدامات کی بنیاد پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات ہر حال میں جیتنا چاہتی تھی تاکہ ایک ہندو وزیر اعلی مقبوضہ جموں و کشمیر پر مسلط اور پھر ریاستی اسمبلی سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے حق میں قراداد منظور کرانے کا منصوبہ رکھتی تھی ،جس سے پھر عالمی برادری کے سامنے کیش کراتی مگر بی جے پی کے اس منصوبے پر اوس گرگئی ہے۔لہذا جن بھارت نواز جماعتوں کو اب مینڈیٹ ملا ہے ،انہیں چاہیے کہ وہ ریاستی اسمبلی سے آرٹیکل 370 اور 35اے کی بحالی کے حق میں قرارداد منظور کرکے اپنے ان وعدوں کا ایفا کریں،جو وہ گزشتہ پانچ برسوں سے اہل کشمیر سے کرتی آئی ہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں نافذ کالے اور بدنام زمانہ قوانین آرمڈ فورسز سیپشل پاورز ایکٹAFSPA،پبلک سیفٹی ایکٹPSAاور UAPA ختم اور ان سفاکانہ قوانین کے تحت بھارتی جیلوں میں برسہابرس سے قید آزادی پسند قیادت،خواتین اور کشمیری نوجوانوں کو رہا کریں ۔جس کا وہ انتخابی جلسوں میں ذکر کرتے رہتے تھے۔اہل کشمیر کا ہر فرد اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ انتخابات مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہیں یہ صرف روز مرہ معمولات کا نظم و نسق چلانے یا دوسر الفاظ میں زندگی کا پہیہ جاری رکھنے کیلئے ہیں ،جس کا ذکر اقوام متحدہ بھی واشگاف الفاظ میں کرچکی ہے۔مودی اور اس کے حواری یہ جان لیں کہ مسئلہ کشمیر انتخابات کا نہیں بلکہ ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے سیاسی مستقبل کا مسئلہ ہے ،جس کا وعدہ بھارت پوری دنیا کو گواہ ٹھرا کر اہل کشمیر کیساتھ کرچکا ہے ۔اس سے انحراف کشمیری عوام کو نہ گزشتہ کل میں منظور تھا،نہ آج ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہوگا۔
Comments are closed.