سطحی طور پر امریکی ڈیموکریٹک امیدوار اور ان کے مدمقابل میں شاید کوئی خاص فرق نظر نہ آئے لیکن جو بائیڈن کی سیاسی اور ذاتی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ان میں اور صدر ٹرمپ میں بڑا فرق ہے۔
جو بائیڈن اگر نئے صدر منتخب ہو گئے تو وہ اٹہتر سال کی عمر میں صدارتی حلف لینے والے امریکا کے معمر ترین صدر قرار پائیں گے۔ وہ امریکی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور کوئی نصف صدی سے واشنگٹن کے ایوانوں میں متحرک رہے ہیں۔
انہوں نے ۱۹۷۲میں امریکی سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتا۔ اور پھر بار بار جیتتے چلے گئے۔ انہوں نے ۱۹۸۸ اور پھر ۲۰۰۸ امریکی صدارت کے لیے کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
نجی زندگی کے صدمے
جو بائیڈن نے اپنی ذاتی زندگی میں بارہا صدمے دیکھے ہیں۔ سن ۱۹۷۲ میں سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتتنے کے فوری بعد ان کی اہلیہ اور چھوٹی بچی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس ایکسیڈینٹ میں ان کے دو لڑکے زخمی ضرور ہوئے لیکن بچ گئے۔ جو بائیڈن کو اس وقت اپنی رکنیت کا حلف ہسپتال سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے دوران لینا پڑا تھا۔
سن ۲۰۱۵ میں ان کے ایک ۴۶ سالہ صاحبزادے بیو بائیڈن کا دماغی کینسر کے باعث انتقال ہوگیا۔ جو بائیڈن کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا کیونکہ ان کے صاحبزادے مقامی سیاست کے ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھے جا رہے تھے اور سن ۲۰۱۶ میں ریاستی گورنر کے عہدے کے الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔
ڈیموکریٹ ووٹرز کی نظر میں جو بائیڈن جس انداز میں نجی زندگی میں ان سانحات سے نمٹے، اس سے ان کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے بارہا اپنے ان تجربات کا ذکر کیا اور امریکا کے نظام صحت میں اصلاحات پر زور دیا۔
خارجہ امور کے ماہر
صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔
وہ تین بار سینٹ کی طاقتور امور خارجہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سن ۲۰۰۸ میں جب وہ صدر باراک اوباما کے نائب صدر کے امیدوار قرار پائے تو اس میں ان کے اس تجربے کا بڑا عمل دخل تھا۔
صدر اوباما کی طرح جو بائیڈن عالمی سطح پر امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ گمبھیر تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما دور کا ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کریں۔ریپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کی نظر میں یہ ایک کمزور لیڈر کی نشانی ہے۔
جو بائیڈن اور پاکستان
صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن پاکستان کو بھی بخوبی جانتے ہیں اور پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ پچھلی تین دہائیوں کے دوران ان کے پاکستان کے سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ براہ راست رابطے رہے ہیں اور وہ وہاں سول ملٹری عدم توازن کے مسئلے سے بخوبی واقف ہیں۔
سن ۲۰۰۸ میں انہوں نے رپبلکن قیادت کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کی امداد کا پیکج تیار کیا جس کا نام “بائیڈن لوگر بل” تھا۔ تاہم ان کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد اس بل کا نام وزیر خارجہ جان کیری کے نام سے منسوب ہوا اور سن ۲۰۰۹ میں صدر اوباما نے “کیری لوگر بل” کی منظوری دی۔
جو بائیڈن سمیت امریکی قیادت کی خواہش تھی کہ اس امداد کے ذریعے پاکستان کو جمہوریت کے تسلسل، آزاد عدلیہ اور دہشتگرد تنظیموں کے خلاف ایکشن کی ترغیب دی جائے۔ لیکن پاکستان میں عسکری قیادت کے شدید اعتراضات کے بعد یہ امدادی پیکج متنازعہ بن گیا۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں بطور امریکی نائب صدر ان کے اسلام آباد کے ایک دورے میں ان سے بارہا پوچھا گیا کہ اگر امریکا پاکستان کا اتحادی ہے تو آئے دن قبائیلی علاقوں میں ڈرون حملے کرکے اس کی خودمختاری کیوں پامال کرتا ہے؟
اس موقع پر انہوں نے جو جواب دیا اس سے ان کی پاکستان کے بارے میں سمجھ بوجھ واضح ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا اپنے تیس سالہ تجربے کی بنیاد پر وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی فوج کا ملکی دفاع میں زبردست کردار رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی خودمختاری کوئی پامال کرتا ہے تو وہ یہاں بیٹھے انتہاپسند ہیں جو آپ کے ملک کا نام خراب کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “ہمارا مقصد آپ کی قیادت اور آپ کے وزیراعظم کے ساتھ مل کر آپ کی خودمختاری بحال کرنا ہے جسے انتہاپسند پامال کررہے ہیں۔”
Comments are closed.