نواب آف سبز باغ

تحریر: آفاق فاروقی

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز دیکھنے کے بعد اب بھی اگر کسی کو شک ہے“ نواب آف سبز باغ “ نے ریاست کے سینے پر خنجر گھونپنے کی باقاعدہ تیاری کی تھی اور اس تیاری میں ملک کی وہ اشرافیہ پیش پیش تھی جس کے بڑوں نے یا خود  اس نے پہلے اس ملک کو لوٹا، نظام و انتظام کو اپنے حق میں ڈھیلا کرکے ختم کیا اور اب جسے ملک میں عام آدمی کے لئیے ریاست مدینہ اور اپنے لئیے یورپ و امریکہ جیسا ماڈرن لبرل سیکولر ماحول چاہیے،جسے ، جمہوریت آئین ، انصاف قانون اور میرٹ اپنے حق میں چاہیے۔

جس اشرافیہ کی نگاہ میں جرم صرف وہ ہے جو عام اور کمزور طبقے کے شہری سے سر زد ہو ، اور اس راہ میں اسے کسی قسم کی رکاوٹ منظور ہے نہ برداشت ۔۔۔۔۔۔۔ سول میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر سپریم کورٹ کے  مشہور زمانہ پونی ٹیل ریٹائرڈ جج جسٹس ایس خواجہ کے خاندان کی خواتین صاف دیکھی اور سنی جاسکتی ہیں اور جو خود دعویٰ کررہی ہیں کور کمانڈر لاہور کے گھر کو کیسے آگ لگائی گئی اور کور کمانڈر کیسے گھر خالی کرکے چلے گئے۔

جسٹس ایس خواجہ جو 9 مئی کے سانحہ کے مجرموں کو سزا دینے کے لئے قائم کی جانے والی ملٹری کورٹس کے قیام  کے خلاف عدالت چلے گئے ہیں، اس ویڈیو کو دیکھ کر سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگتی  کہ جسٹس ریٹائرڈ ایس خواجہ ملٹری کورٹس کے خلاف  عدالت کیوں اور کس مجبوری کے تابع گئے ہیں؟

یہاں یہ امر دلچسپی سے ہر گز خالی نہیں ہوگا ، مستقبل قریب کے چیف جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ جن کا نوٹیفکیشن وقت سے تین ماہ پہلے جاری کرکے موجود عدالت سے امید رکھنے والے“ نواب آف سبز باغ “ عمران خان اور ان کے ساتھیوں جو خان کے ہمراہ “ انقلاب بپا کرنے نکلے تھے مگر تاریخ کے روایتی انقلابی رویے کے برعکس عدالت سے ضمانت خارج ہونے پر فخریہ گرفتاری دینے کی بجائے فرار ہو گئے انہیں واضع پیغام دیا گیا ہے کہ آنے والے دن ان کی“ انقلابی“ سیاست کے تابوت میں کیل ثابت ہونگے۔

مگر ملک کے قانونی حلقے اور جسٹس فائز عیسی کو جاننے والے دعوے کرتے ہیں ملٹری کورٹس کے مسئلے پر ریاست حکومت اور ستمبر میں منظر پر ابھرنے والی سپریم کورٹ میں بھی تنازعہ پیدا ہوگا کہ جسٹس فائز عیسی جو جمہوری ، آئینی اقدار اور انسانی حقوق کی حفاظت کے پس منظر میں پورا ایک ماضی رکھتے ہیں اور انکے نظریے فکر سے ملٹری کورٹس کہیں بھی مطابقت نہیں رکھتیں یہاں یہ امر مذید گہری دلچسپی کا حامل ہے حکومت میں شامل پیپلز پارٹی متحدہ پاکستان سمیت کئی سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتی نظر آتی ہیں،اگر فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو ملک کی عدلیہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ریاست کی دفاعی تنصیبات پر حملہ کرنے والی اشرافیہ جس کے پاس دولت بھی ہے اور جسے ملک کے بعض نامور ترین وکلا کی حمایت بھی حاصل ہے ، ایسے میں کیا ملک و ریاست پر حملہ کرنے والے مجرموں کو باآسانی سزا دی جاسکے گی؟

یہاں یہ بھی یاد رہے تاریخ بتاتی ہے حکمرانوں اور نظام کے خلاف عام شہری کی حمایت  جو بلاشبہ تحریک انصاف کو اب بھی حاصل ہے ، اہم تصور کی جاتی ہے وہیں  کسی بڑی تبدیلی کے لئیے ملک کی اشرافیہ کا جھکاؤ فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے، اور پاکستان کی بدعنوان اشرافیہ کا ایک بہت بڑا طبقہ خان کی پشت پر کھڑا ہے۔

عمران خان جنکی سیاست کا ایفل ٹاور یا بُرج خلیفہ جھوٹے نعروں وعدوں اور دعووں پر کھڑا ہے اگر جمہوری آئینی اور انسانی حقوق کی علمبردار سیاسی سماجی اور قانونی قوتوں کی مدد حاصل کرکے سانحہ 9 مئی کے جرائم سے بچ نکلے تو ملک کا سیاسی سماجی اور معاشی مستقبل کیا ہوگا ، اور مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات میں خان کو حصہ لینے سے نہ روکا جاسکا تو خان کی انتقامی فطرت کے باعث کیا کیا نہ غدر پڑے گا ، اور اسکے ریاست پر کیا نتائج مرتب ہونگے ؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب ابھی کسی سیاسی دانشور حلقے کے پاس نہیں ہے۔

Comments are closed.