چین نئے ورلڈ آرڈرکاسرخیل

 تحریر: پروفیسرعائشہ عالم،چین

سال 2020 ، دنیا بھر کےلیے ایک خوفناک سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی دنیا کو کئی بڑی وباوں کا سامنا رہاہے لیکن یہ اکثرکسی ایک خطے تک محدود رہیں لیکن اس بار کورونا وباء نے پوری دنیامیں کاروبار زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا اور لاکھوں افراد اس مہلک وائرس کا شکا ر ہوکر لقمہ اجل بن گئے۔ کورونا وائرس کو لیکر امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی نظر آئی،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا سے لیکر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک ہر فورم پر چین کو ہدف تنقید بنائے رکھا۔چین جہاں سے اس وباء کا ا ٓغاز ہوا اس نے کمال حکمت عملی سے کچھ ہی عرصے میں کورونا وباء پر مکمل قابو پاء کر امریکہ سمیت دنیا میں صحت کا جدید ترین نظام رکھنے والے ممالک کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ اس کامیابی نے بلاشبہ اقوام عالم میں چین کامقام اور اثر و رسوخ مزید بڑھا دیا لیکن یہ بڑی کامیابی امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہ بہائی ۔

 کورونا کیساتھ ہی 2020 میں ہر طرف نئے ورلڈ آرڈر کی بھی باز گشت سنائی دی ۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس پر بحث ومباحثہ شروع کردیا اور چین کو اس کا سرخیل قرار دیا۔ اس وقت دنیا دو بڑے بلاک میں تقسیم ہو رہی ہے ،ایک بلاک میں چین ، پاکستان، ایران ، بنگلہ دیش، ترکی ، ملائیشیا، روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں شامل ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ ، بھارت، سعودی عرب، اسرائیل اور ان کے من پسند ممالک شامل ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چین کا یہ کردار کسی صورت قبول ہے نہ ہوگا۔ یوں چین پر کورونا وباء سے متعلق غیر حقیقت پسندانہ الزامات عائد کرکے ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔مئی 2020 میں بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے نے شدت اختیا رکرلی ۔

یوں تو بھارت اور چین کے تعلقات 1950 میں دوستانہ تھے لیکن 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعے پر جنگ نے خطے کے حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ۔ 1962 سے پہلے چینی ہندی بھائی کا نعرہ بر صغیر پاک و ہند میں مقبول عا م تھا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گرم جوشی پائی جاتی تھی ۔ چین اور بھارت کی جنگ کے بعد چین اورپاکستان دونوں کو خطے میں ایک دوسرے کی اہمیت کا احساس ہو ا۔ 1962کے بعد چین اور پاکستان نے اپنے قریبی تعلقات کو پائیدار اور مستحکم بنانے کے لیے اہم معاہدوں پر دستخط کیے اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں چین کیساتھ تعلقات کو خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو قرار دیکر پاک چین دوستی کی نئی بنیاد رکھ دی گئی۔

 دوسری جانب 1962کے بعد اس علاقے میں کسی حد تک ماحول پرامن رہا لیکن حالیہ کشیدگی نے اس خطے کی صورت ایک با ر پھر تبدیل کردی ۔15جون 2020 کو چین کی پیپلز لبریشن آرمی اور بھارتی فوج کے درمیان خون ریز جھڑپ ہوئی جس میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے ۔یوں دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازع کے بعد باقاعدہ جنگ کے خطرات منڈلانے لگے تو امریکہ ہمیشہ کی طرح ایک با رپھر بھارت کی حمایت میں کود پڑا۔ حکومت چین نے اشتعال انگیزی بڑھانے کے بجائے واضح موقف اختیا رکیاکہ بھارتی فوج نے چین کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی اور چین نے اس پر اپنا رد عمل دیا۔

اس واقعے کے بعد بھارت کی طرف سے ایک بڑی جنگ شروع کرنے کے اشارے بھی ملے لیکن چین نے ہمیشہ کی طرح اس خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کے حل پر زور دیا ۔ چین نے ثابت کیا وہ ایک ذمہ دار ایٹمی طاقت ہے اور خطے کا امن اس کی اولین ترجیح ہے ۔ چین کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کوئی بھی تنازع اس کی تیز رفتار معاشی ترقی کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اس وقت پوری دنیا میں چین اپنی معاشی گرفت مضبوط کر رہاہے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کوعملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے جبکہ پاکستان کے لیے اس کا اہم حصہ سی پیک ہے ۔

 اگست 2020میں اگر چین کے باقی ممالک کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک بدلا ہوا چین نظر آتاہے جو پورے خطے کو ساتھ لیکر ترقی کا سفر طے کرنا چاہتا ہے ۔ایران اور چین کی قربت نے بھارت کو پریشان کردیا کیونکہ ایران خطے میں بھارت کا سب سے قریب ترین اتحادی تصور کیا جاتا تھا ۔گوادر کے مقابلے میں بھارت ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پر 45بلین ڈالر کے معاہدے کر چکا تھا لیکن امریکہ کی ایران پر پابندیوں کو دیکھتے ہوئے بھارت پیچھے ہٹ گیا تو ایران پر بھی اس کی اصلیت آشکار ہوئی ۔ اس مشکل وقت میں چین نے ایران کا ہاتھ تھا ما اور کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز کر دیا۔

 ایران کے بعد بھارت کا ایک اور مضبوط اتحادی بنگلہ دیش بھی اب چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت مودی سرکار سے این آر سی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر کافی ناراض ہے اور بھارت کی قیادت سے بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اگر بنگلہ دیش اور بھارت تعلقات کا جائزہ لیں تو 1971سے لیکر آج تک بھارت اور بنگلہ دیش کا قریبی بندھن ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔ بھار ت کا ایک اور قریبی ہمسایہ نیپال جو ہندو ریاست ہے وہ بھی اب چین کی طرف دیکھ رہا ہے ۔

 اس صورتحال میں چین اپنی ُپرامن بقائے باہمی کی پالیسی کے ساتھ تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لئے کوشاں ہے ۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں اس وقت تک 71سے زائد ممالک شامل ہوچکے ہیں ، اس منصوبے سے جہاں پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے وہیں یہ پورے خطے میں معاشی انقلاب کا باعث بنے گا ۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو سے مختلف ممالک کے درمیان زمینی رابطے استوار ہوں گے ، غربت کا خاتمہ ہوگا اور پسماندہ ممالک بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوں گے ۔

 2019میں میں نے اپنی کتاب ہمالیہ کے سائے تلے پاک چین دوستی کے سفر میں لکھا تھا کہ آنے والے دنوں میں چین کے ان منصوبوں کی وجہ سے طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب منتقل ہوگا۔ اب وقت آ چکا ہے چین ایک بڑی طاقت بن کے ابھر رہا ہے ۔ عالمی منظر میں یہ تبدیلی پاکستان کے لئے باعث اطمینان ہے کیونکہ پاکستانی اور چینی عوام لازوال دوستی کے مضبوط رشتے میں بندھے ہیں،دونوں ملکوں نے ہر مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا تو اب پاکستان ، روس، چین ، ترکی اور ملائیشیاءجیسے ممالک کی قربت بین الاقوامی سیاست کا رخ موڑ رہی ہے ۔

اسی طرح بنگلہ دیش اور ایران کی چین سے بڑھتی قربت نے بھی بھارت نیندیں اڑا رکھی ہیں ۔ بھارت کے تما م ہی پڑوسی ممالک مودی سرکار کی دہشتگرد اور انتہا پسندانہ پالیسیوں سے تنگ آ چکے ہیں۔ جنگی جنون میں مبتلا مودی سرکار نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے لیکن چین اور پاکستان کا خطے اور عالمی دنیامیں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اب بھارت کے لیے ڈروانا خواب بن چکاہے ۔

Comments are closed.