انگلستان میں اجنبی، تاحیات ٹیکسی، ویٹر یا سیکیورٹی کی جاب برطانیہ فتح کرنے کے مترادف کیوں؟
تحریر: نور الامین دانش، لندن
ویسے برطانیہ میں اجنبی تو ہمارے جیسے حصول روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں نئے نئے آنے والے لوگوں کو ہونا چائیے تھا لیکن جب سے یہاں آیا ،ادھر کچھ اور ہی مناظر دیکھے۔دراصل اس معاشرے کے اصل اجنبی تو پچھلی کئی دہائیوں سے قیام پذیر دیسی عوام ہیں جو کہ شاید اگلی کئی نسلوں تک اجنبی ہی رہیں گے وہ الگ بات ہے کہ ان کی اولادیں ان سے آزادی حاصل کر لیں ورنہ یہ برطانوی معاشرے کے اجنبی تادم مرگ رہتے ہیں۔یہاں اپنے ملک سے آنے والے افراد کو سب سے پہلے تو تا حیات ٹیکسی ، کسی ٹیک آوے پر ویٹر یا پھر زیادہ سے زیادہ سیکورٹی کی نوکری حاصل کرنے کو ریاست ہائے متحدہ برطانیہ کو فتح کرنے کے مترادف بلکہ کچھ تو ایسی جابز مل جانے کو انگریزوں سے 1857 کی جنگ کا بدلہ قرار دینے میں بھی دیر نہیں لگائیں گے۔
زیادہ دور نہ جائیں ابھی اگر یکم مئی کی بات کریں تو انگریزوں کے پاس کام کرنے والی لیبر کو 20 پاؤنڈ فی گھنٹہ کے حساب سے کام کروایا گیا جبکہ اپنے دیسی بھائیوں نے وہی 6 سے 8 پاؤنڈ دیکر احسان عظیم کیا۔ چند روز قبل ایک ریسٹورنٹ پر پاکستانی بزرگ سے ملاقات ہوئی جسکی کمر وہاں صفائی کر کر کے مکمل طور پر جھک چکی تھی اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ جناب تیس سال سے اسی جگہ یہی کام کر رہے اور ساتھ لوگوں کو مشورہ بھی دے رہے کہ بیٹے اس سے زیادہ اور کیا چائیے ، نوکری لگی ہے بس سب آپ لوگ پڑھ کے کوشش کرو یہاں کوئی جگہ مل جائے۔ آگے آگے چلیں تو آپ کا واسطہ یہاں کے ان اجنبی دیسیوں سے ہو گا کہ اگر انہیں ذرا سی بھی آپ کے پڑھے لکھے ہونے کی بھنک لگ گئی بس پھر آپ اپنی خیر منائیں ، وہ اپنی زندگی میں میٹرک تک پاس نہ کر پانے کے کملپلیکسس بس آپ کی جان پر عذاب بن کر اتاریں گے۔
برطانیہ میں زیادہ تر بلکہ نوے فیصد کہیں تو غلط نہیں ہو گا تمام کی تمام مزدوروں والی جابز دیسی ہی کر رہے اور شاید اس معاشرے کے اجنبی یہ بیچارے لوگ ہمیشہ یہی کرتے مر جائیں گے۔ لندن کی گرین سٹریٹ وغیرہ پر کبھی آپ انڈر گراونڈ ٹرین سے جائیں تو ٹکٹ مشین کے پاس آپ کو تین چار ٹکٹ چیکر کھڑے ملیں گے میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جن علاقوں میں لوگ بغیر ٹکٹس کے سفر کرتے وہاں پر ٹکٹ چیک کرتے اور گرین سٹریٹ بھی ماشااللّہ سے سو فیصد ایشینز سے بھری پڑی ہے۔ تھوڑا اور آگے بڑھیں تو یہاں پر یقین مانیں کئی ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی جن سے کام کروا کے ان سورماؤں نے ایک پینی تک ادا نہیں کی۔پھر ایک اور قبیل آ جاتی ہے جس نے کم از کم دس سال تک پاکستان نہ جانے کو برطانیہ میں کامیابی کی پہلی اور آخری سیڑھی بنایا ہوتا ہے۔
مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون کیا کام کرتا ہے،کیوں کرتا ہے،کیونکہ کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا لیکن کئی کئی دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر عوام کو اب برطانوی نظام سے پردہ داری و اجنبیت سے چھٹکارا پانا ہو گا، دنیا کے اس بہترین نظام کی خوبیوں کو اپنانا ہو گا، جھوٹ ، فراڈ ، فریب سے نکل کر مثبت انداز سے اس معاشرے میں زندگی گزارتے ہوئے روبوٹ اور انسان کے فرق کو جان کر جینا ہو گا۔
Comments are closed.