وزیراعظم آزادکشمیرسردارعبدالقیوم خان نیازی نے آتے ہی آزادکشمیر پولیس میں اصلاحات کی نوید سنادی ۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے، لیکن ملین ڈالرسوال یہ ہے کہ کیا ایساممکن ہو پائےگا؟
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد میں جن باتوں پر سب سے زیادہ زور دیا ان میں سرفہرست تھانہ کلچر کی تبدیلی اور خاص کر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے پولیس نظام میں اصلاحات کرنا تھا۔ اگر وزیر اعظم عمران خان اس میں کامیاب نہیں ہو سکے تو وزیر اعظم آزاد کشمیر عبد القیوم نیازی کیسےسرخرو ہوں گے ؟
وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب پولیس میں جامع اصلاحات کے لیے ایک انتہائی دیانتدار افسر سابق آئی جی خیبر پختونخواہ ناصر خان درانی (مرحوم ) کی خدمات حاصل کیں لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور عمران خان کو چند ماہ بعد ہی بے بس ہوکر اپنے پسندیدہ افسر کو عہدے سے فارغ کرنا پڑا کیونکہ تھانہ کلچر میں تبدیلی کسی ایم این اے ،ایم پی ا ے کو قبول ہے نہ با اثر افراد کو۔
اب اگر وزیر اعظم آزادکشمیر یہ اہم فریضہ سر انجام دینے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں کچھ بنیادی نوعیت کے اہم اور بڑے فیصلے کرنا ہوں گے تبھی یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ وزیر اعظم نے آئی جی پی آزاد کشمیر سہیل حبیب تاجک کو اس حوالے سے لائحہ عمل مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ، آئی جی پولیس انتظامی نوعیت کا حکم نامہ تو جاری کرسکتے ہیں لیکن ٹھوس پالیسی مرتب کرنا ان کے دائرہ اختیار میں نہیں، یہ کام وزیر اعظم کو اپنے زیرک ساتھیوں کیساتھ بیٹھ کر کرنا پڑے گا جو انہیں ایک جامع ڈرافٹ تیا ر کر کے دیں ،اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرتے اور پھر اتنا بڑا اعلان کرتے لیکن اب اگر کر دیا ہے تو بسم اللہ کریں اور آگے بڑھیں۔
وزیراعظم آزادکشمیر کو اس بنیادی حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ آزادکشمیر پولیس کو اگر جدید خطوط پر استوار کرنا ہے تو اس کے لیے کثیر بجٹ مختص کرنا ہوگا جبکہ آزادکشمیر پولیس کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔پاکستان پولیس کی نسبت کئی حوالوں سے بہتر آزادکشمیر پولیس میں اس وقت سب سے بڑی خرابی رشوت ستانی ہے، اس کا سدباب انتظامی سختی سے ہونا ممکن نہیں، اس کے لیے پولیس کانسٹیبل سے لیکر ایس ایچ او رینک تک کے افسران کی تنخواہوں میں نمایاں اضافہ اور انہیں مراعات دینی ہوں گی ۔
ایس ایچ او کسی بھی تھانے کا مختار کل ہوتا ہے، مظلوم کی ابتدائی داد رسی سے لیکر چالان پیش کرنے تک سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے، اگر ایس ایچ او ہی کسی لالچ کی بنیاد پر مظلوم کے بجائے ظالم کیساتھ کھڑا ہوجا ئے گا تو غریب کو انصاف ملنا ممکن نہیں، لیکن اگر آپ چھوٹے پولیس اہلکاروں ، تفتیشی افسر اور ایس ایچ او کو اس کے معاشی مسائل سے آزاد کردیں تو آزادکشمیر پولیس کا 50 فیصد نظام خودبخود درست ہوجائے ، اس کے بعد بھی اگر کوئی افسر رشوت لینے کا مرتکب ہوتا ہے تو پھر اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے ۔ بہترین سہولیات اور جزاو سزا کا تصور ہی آزادکشمیر پولیس کو ایک مثالی فورس بنا سکتاہے، اس کے علاوہ ہر کارروائی رسمی ہوگی۔
وزیراعظم آزادکشمیر اگر جائزہ لیں تو انہیں علم ہو گا کہ پولیس کی روزانہ کی پٹرولنگ یعنی گشت کے لیے کسی بھی ضلع کو جو سالانہ بجٹ دیا جاتا ہے وہ شاہد ایک ماہ کے لیے بھی کافی نہ ہو اور اس کے بعد 11 ماہ پولیس شہر کے پٹرول پمپس والوں کی منت سماجت کرتے نظر آتی ہے کہ پٹرول ڈال دیں ،رات کو گشت پر جانا ہے ۔ اکثر اوقات تو جائے واردات پر بروقت پہنچنے کے لیے بھی پولیس کی گاڑیوں میں پٹرول نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایف آئی آر کے بعد کسی بھی تفتیس کے لیے مختص بجٹ بھی شاہد چند سو روپے سے زیادہ نہیں ہوتا، ایسے میں بعض اوقات پولیس اہلکار وں کو جائے وقوعہ یا کسی ملزم کی گرفتاری کے لیے جانا ہو توگاڑی میں پٹرول ڈالوانا یا پرائیوٹ گاڑی کی بکنگ ، سب سائل کے ذمے ہے ۔ پولیس اہلکاروں کی رہائش گائیں دیکھیں تو ترس آتا ہے۔2005 کا زلزلہ نہ آتا تو تھانوں کی عمارتوں کی حالت زار بھی آج تک دیکھنے لائق ہوتی۔
مجھے حیرت ہوتی ہے پولیس فورس کے بچوں کے لیےآج تک آرمی پبلک اسکول کے طرز پر معیاری تعلیمی ادارے کیوں نہیں بنائے جا سکے ، ہر جگہ سی ایم ایچ موجود ہیں لیکن پولیس ہسپتال کیوں نہیں ؟ اگر آپ پولیس اہلکاروں اور افسران کو بچوں کے تعلیمی اور صحت کے اخراجات کے بوجھ سے آزادکر دیں اور ایک اچھی تنخواہ دی جائے تو ہی آپ کو ایک دیانتدار اور فرض شناس پولیس فورس مل سکتی ہے، صرف حکم سے بات نہیں بنے گی ۔
وزیراعظم آزادکشمیر اگر تاریخ میں ،وزیر اعظم فیروز خان نون ،،بنناچاہتے ہیں تو ا نہیں اپنے اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹھوس عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر وہ اپنی مدت اقتدار میں صرف ایک کام ، آزادکشمیر پولیس کوجامع اصلاحات کیساتھ ایک قابل فورس میں تبدیل کردیتے ہیں تو اس کا فائدہ براہ راست آزادکشمیر کے چالیس لاکھ افراد کو پہنچے گا اور قوم ان کے اس اقدام کوہمیشہ یاد رکھے گی ۔
وزیر اعظم پاکستان فیروز خان نون 16 دسمبر 1957 سے 8 اکتوبر 1958 تک صرف 9 ماہ وزیر اعظم پاکستان رہے اور اس دوران انہوں نے گوادر کو عمان سے خرید کر پاکستان کا حصہ بنا دیا، وہ گوادر جس پر مستقبل میں ایک ترقی یافتہ پاکستان کی عمارت استوار ہوگی ۔ تاریخ وزیر اعظم عبدالقیوم خان نیازی کو فیروز خان نون کی طرح یاد رکھے یا عثمان بزدار کی طرح ، فیصلہ ان کا ہو گا۔
Comments are closed.