وزیراعظم عمران خان کے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج نے کراچی کے تمام بڑے مسائل کے حل کی ٹھوس بنیاد رکھ دی ہے ۔سولڈ ویسٹ مینجمنٹ ،پانی کی فراہمی، نکاسی آب ، عوامی نقل وحمل یعنی روڈ ٹرانسپورٹ ،کراچی سرکلر ریلوے، بجلی اور بنیادی ڈھانچے کے علاوہ سیوریج ٹریٹمنٹ وہ مسائل ہیں جنہوں نے اہل کراچی کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔
انیسوی صدی کے آغاز سے روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی گزشتہ چار دہائیوں سے جرائم اور سیاست کے بدترین گٹھ جوڑ کا مرکز بناہوا ہے ۔جہاں ریاستی اداروں بالخصوص پولیس، انتظامیہ، سیاسی جماعتوں اور جرائم پیشہ افراد، عمومی طور پر جنہیں مافیا کے نام سے پکارا جاتاہے نے مل کر سونے کی کان کہلانے والے شہر کو مفلوج بنایا۔ وہ شہرجو پاکستان کے مفلوک الحال شہریوں کی آخری پناہ گاہ تھا۔جرائم پیشہ افراد کا مرکز بن گیا۔
ڈاکٹر فرخ سلیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا: چار سو میٹر چوڑے نالے چار میٹر تک محدود کردیئے گئے۔ وہ بھی کوڑا کرکٹ سے بھرے ہیں۔ نالوں پر غیر قانونی تعمیرات نے اہل کراچی کو کئی دنوں تک سیلاب میں ڈبو ئے رکھا۔ کراچی والوں کے دکھ دیکھ کر پورا ملک سوگوار ہوگیا۔
گزشتہ عام الیکشن میں کراچی نے ایم کیوایم کو لپیٹ کر رکھ دیا اور تحریک انصاف کے سر پر کامیابی کا تاج سجایا۔1988 کا منظر دہرایاگیا جب ایم کیوایم کے غیر معروف لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ اب کی بار تحریک انصاف نے ایم کیوایم کا بوریا بستر گول کردیا۔ حالانکہ یہ جماعت گزشتہ تیس برسوں سے کراچی کے سیاہ اور سفید کی مالک تھی۔ ایم کیوایم ووٹ بینک تحریک انصاف کی جھولی میں پڑا تو وہ برسراقتدارآئی۔ کراچی سے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 14 اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں حاصل کرکے دنیا کو ششدر کر دیا۔
گزشتہ دو برسوں میں وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین آئیڈیل تال میل قائم نہ ہوسکا۔ احتساب کا شنکجہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ پر کسا جاتا تو سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی آہ و زاری شروع ہو جاتی۔ پی پی پی سیاسی بلیک میلنگ کرتی۔ سندھ حکومت کئی ایک منصوبوںکے آڑے آجاتی۔ وفاق سے ملنے والے فنڈز کو وہ من مانے طریقے سے استعمال کرنے کی خواہش مند تھی۔
پی پی پی کی بری ساکھ کی بدولت وزیراعظم عمران خان مالیاتی معاملات میں ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہ تھے۔ گزشتہ بارہ برسوں میں سندھ کی صوبائی حکومت نے عوام کی فلاح وبہبود سے زیادہ زرداری خاندان اور پارٹی کے سورماؤں کے پیٹ کی آگ بجھانے میں دلچسپی لی۔ معمولی وسائل رکھنے والے پارٹی لیڈر ارب پتی کہلاتے ہیں۔
دوبئی میں بڑے بڑے کارخانوں اور پلازوں کے مالک بھی۔ شفاف مالیاتی نظام مرتب کیے بغیر کیسے سینکڑوں ارب سندھ حکومت کی صوابدید پر چھوڑے جاتے؟ یہ وہ مشکل تھی جس کے باعث گزشتہ دوبرسوں میں وفاقی حکومت خواہش کے باوجود کراچی شہر کی طرف بھرپور توجہ نہ دے سکی۔
وفاقی حکومت نے کورونا وائرس کی مہلک وبا سے نمٹنے کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔اس ادارے میں وفاقی، صوبائی حکومتوں کے علاوہ متعلقہ وزارتوں اور فوج کے ذمہ داران کو بھی شامل کیا گیا تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرزاور ادارے ایک پیج پر ہوں اور مشاورت سے فیصلہ کریں۔یہ تجربہ کارگر ثابت ہوا ۔ اسی نظام کی بدولت کورونا وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کیاگیا۔
اسی ادارے کی طرز صوبائی رابطہ و عملدرآمد کمیٹی (پی سی آئی سی) تشکیل دی گئی ہے جو کراچی میں گیارہ سوارب روپے کے منصوبوں کی نگرانی کرے گی۔ شفافیت اوران پر تیزی سے عمل درآمد کو یقینی بھی بنائے گی۔اس کمیٹی میں عسکری اداروں کا بھی کردار ہے۔ کراچی میں پہلے ہی امن وامان کی بحالی کے لیے رینجرز اور دیگر اداروں نے مل کر قابل تحسین کردار ادا کیا ہے۔ امید ہے کہ اس کمیٹی کی موجودگی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین تعلقات کار ہموار رہیں گے اور پیچیدہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرنا مشکل نہ ہوگا۔
یاد رہے کہ کراچی کے موجودہ مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے۔اسی کی دہائی سے ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کوحالات کے رحم وکرم پر چھوڑ اگیا۔ بیرونی مداخلت تو ایک طرف رہی۔ متعدد دوستوں اور دشمنوں نے مل کر اس کراچی کو تباہ کیا۔ کراچی کی تباہی سے کئی خلیجی ممالک کی بندرگاہیں اور ائرپورٹ آباد ہوئے اور پاکستانیوں کے چولہے بجھے۔ جیو اسٹرٹیجک سیاست یا کاروباری مفادات کی تلخ حقیقت یہ ہی ہے کہ یہاں دوسروں کی تباہی پر اپنی خوش حالی کے محلات کھڑے کیے جاتے ہیں۔
بدقسمتی کے ساتھ کراچی کا بلدیاتی نظام صوبائی حکومتوں کی بے جا مداخلت ، ایم کیوایم کی داخلی گروہ بندی اور مافیا کے ساتھ تال میل کی بدولت بری طرح ناکام ہوا۔نالوں کی صفافی، ٹرانسپورٹ کا انتظام اور دیگر بہت سارے مسائل اگر موثر بلدیاتی نظام موجود ہوتاتو خودبخود حل ہوجاتے ۔گورننس کے اکثر مسائل موثر بلدیاتی نظام ہی کے ذریعے دنیا بھر میں حل کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا باوآدم ہی نرالہ ہے۔ ہر کام میں سیاست اور گروہی مفادات کو مقدم ٹھہرانا ہمارا طرہ امتیاز۔کراچی میں بلدیاتی الیکشن کاہنگامہ ایک بار پھر برپا ہونے کو ہے۔ دو اگست کو سندھ کے بلدیاتی ادارے تحلیل ہوچکے۔
سندھ حکومت نے بلدیاتی نظام کے قوانین میں ترمیم کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ امید ہے کہ جلد سندھ میںبلدیاتی الیکشن ہوں گے۔ عدالتیں بھی بلدیاتی الیکشن کرانے پر بضد ہیں۔ تحریک انصاف کے منشور میںبلدیاتی نظام کو اچھی حکومت کے لیے ریڑھ کی ہڈی قراردیاجاتاہے۔اگر شہریوں نے بلدیاتی الیکشن میں تحریک انصاف کو کامیابی سے ہمکار کیا تو کراچی شہر کا میئر صوبائی اوروفاقی حکومتو ں کے تعاون سے شہری مسائل کو آسانی سے حل کراسکے گا
کراچی پاکستان کا محض معاشی مرکز ہی نہیں بلکہ اسٹرٹیجک اہمیت کا حامل شہر بھی ہے۔ کراچی کی رونقیں بحال ہوں تو چند برسوں کی محنت سے ایک بار پھر’’روشنیوں کا شہر‘‘ آباد ہو سکتاہے۔ کراچی والے باصلاحیت، محنتی اور باکمال لوگ ہیں۔ ہمارے صنعت کار اور تاجر کراچی کو سنگاپوراور ہانگ کانگ سے زیادہ خوبصورت اور جدید شہر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صرف ایک بار ان کی جان بدعنوان اور نااہل مافیا سے چھوٹ جائے۔اللہ کا شکرہے کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور عسکری لیڈرشپ کراچی والوں کی پشت پر کھڑی ہوچکی ہے۔ کراچی بدلے گاتوپورا ملک خوشحال ہوگا۔ ان شاءاللہ۔
Comments are closed.