تربیت اخلاق برائے تعلقات عامہ (پبلک ڈیلنگ)۔۔۔۔اور ہم
تحقیق و تحریر: ڈاکٹر سید انعام حسین شاہ بارسلونا
یورپ میں پبلک ڈیلنگ کی ملازمت بندہ خاک بسر نے بارسلونا ائیرپورٹ پر کی اور میرے ایک عزیز دوست ہیں سیف چودھری، ان کا کام بھی بارسلونا ائیرپورٹ پر پبلک ڈیلنگ سے ہی ہے. میرے دوست اس بات کی تائد کریں گے کہ مقامی یا یورپین امپریسا جب بھی کسی کو پبلک ڈیلنگ کی ملازمت دیتا ہے تو پوسٹ پر کھڑا کرنے سے پہلے پبلک ڈیلنگ کی تربیت دیتا ہے یا پبلک ڈیلنگ کا مقامی تجربہ مانگتا ہے. اور اس بات سے بھی اتفاق کریں گے کہ جس شخص کا پبلک ڈیلنگ میں اخلاق بہترین سے زرّہ برابر بھی کم ہو، اسکو ایام آزمائش (پروبا) کے دوران ہی فارغ کر دیا جاتا ہے۔
پبلک ڈیلنگ میں ہمارے دیسی اکثریت مرد بالعموم اور خواتین بالخصوس اخلاق سے عاری، کام سے بیزار، چہرے پر بوریت لئے ایسا موڈ بنا کر کاؤنٹر پر موجود ہوں گے جیسے وہاں یورو بٹورتے ہوئے آپ پر کوئی احسان کر رہے ہوں. اور ہمارے دیسی گاہک بھی الّا ماشاء اللہ رقم دینے وقت ایسے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہیں جیسے ان لوگوں کو امیر ہونے میں مدد دینے پر ان کے نیاز مند ہوں. مطلب یہ کہ ہم اپنی محنت کی کمائی آپ کو دے کر آپ کے احسان کے نیچے دب گئے ہیں۔
ایک ایسا ہی واقعہ بادالونا کی ایک کیش اینڈ کیری پر پیش آیا جب سیف چودھری نے سینکڑوں یورو کی خریداری کی. یورو وصولی کرنے والی کھڑکی میں پہلے تو کسی نے توجہ ہی نہیں دی. پھر جب کاخیرو نے کسی کو کہا کہ رقم وصول کر لی جائے تو ایک دوشیزہ ایسا منہ بنا کر آئیں جیسے کوئی بچہ لمبی چھٹیوں کے بعد پہلے دن اسکول کی شکل دیکھتا ہے. رقم وصول کرنے کے بعد اب وہ منتظر تھیں کہ ان کو شکریہ کہا جائے تو چودھری صاحب کا راجپوت خون کھول ہی پڑا اور بڑے ضبط کے بعد بولے کہ آپ کا کوئی سپروائزر نہیں ہے یہاں؟ ایک بڑی عمر کی خاتون جب آئیں تو چودھری صاحب نے بڑے سکون سے ہسپانوی زبان میں سمجھایا کہ خاتون یہاں جس کی بھی ڈیوٹی لگائیں وہ کم سے کم تھوڑا سا پروفیشنل تربیت یافتہ ہو. ایک مسلمان ہونے کے ناطہ اسوہ حسنہ نہ سہی، بحیثیت پاکستانی ہونے ملکی امیج بہتر کرنے کے لئے بھی نہ سہی، کم از کم جس ملک میں رہ رہے ہیں، ہسپانیہ کے ‘نارماس دے کورتیسیہ پروفسونال’ کی خاطر ہی کر لیجئے. ان خاتون کے چہرہ دے ظاہر تھا کہ ان کو ہسپانوی زبان چنداں نہیں آتی. بس منہ بسور کے رہ گئیں اور بولیں کہ کہیں اور سے چیزیں لے لیں….. سمجھا بجھا کر چودھری صاحب کو سامان سمیت واپس گاڑی تک لے آیا۔
حالیہ ہی ایک پاکستانی ریسٹورانٹ / ڈونر شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ایک نوجوان موبائل پر پاتیں کر رہا تھا. دوران گفتگو ہی اس نے ہم سے پوچھ لیا کہ کیا آرڈر کرنا ہے؟ ہم نے دس نانوں کا آرڈر دیا “تل والے نان لیکن بغیر روغن یا آئل کے ہونے چاہئیں”. نوجوان نے بغیر فون منہ سے ہٹائے کچن میں ایک ہکل ماری “دس نان تلاں آلے” اور پھر اپنے ناک میں سے چوہے نکلنا شروع ہو گیا. میں نے چودھری صاحب کی جانب دیکھا اور انہوں نے میری جانب، اب کی بار میرا حوصلہ جواب دے گیا اور میں بغیر نان خریدے وہاں سے واپسی کا ارادہ کیا لیکن اس بار چودھری صاحب نے سمجھا بجھا دیا کہ نئے لوگ ہیں، ٹھیک ہو جائیں گے، جانے دیں. خیر، ہم ریسٹورانٹ سے باہر آ کر انتظار کرنے لگے. کچھ دیر بعد پلاسٹک بیگ میں موجود ایلومینم میں لپٹے نان ہمیں دے دئیے گئے. ہم نے جب رقم دی تو وہ شخص اب بھی مسلسل فون پر ایسی ایسی شکلیں بنا کر کال میں مصروف تھا جیسے کسی طلاق یافتہ عورت کا غیر متوقع رشتہ آ گیا ہو. خیر، گھر آنے پر جب پلاسٹک کھولا تو تمام نانوں کو تیل میں لتھڑا ہوا پایا…… آئندہ ہم کبھی اس ڈونر پر نہیں گئے۔
قارئین؛ پاکستانیوں کی برائی کرنا اس آرٹیکل کر مقصد نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کی زیادہ تعداد عمدہ اخلاق رکھنے والوں کی ہے خصوصاً ٹیکسی سیکٹر قابل تعریف ہے. لیکن ہمارے درمیان ہی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا اخلاق شرم ناک حد تک گرا ہوا ہے. بھائیو، بہنو، بیٹو، بیٹیو، آپ سے اگر پبلک ڈیلنگ ڈھنگ سے نہیں ہوتی تو کوئی ایسا کام ڈھونڈ لیجئے جس میں پبلک ڈیلنگ نہ ہو. لیکن اگر آپ نے پبلک ڈیلنگ ہی کرنی ہے تو برائے کرم کہیں سے تربیت حاصل کر لیجئے، یہاں بہت سے ادارے ایسے ہیں جو پبلک ڈیلنگ کی تربیت دیتے ہیں. قابل تعریف ہونا بہرحال آپ کے لئے مفید ہے بجائے کسی ایسے گاہک سے بے عزت ہونے کے جس کو مقامی قوانین اور بحیثیت گاہک اپنے حقوق کے بارے میں علم ہو۔
Comments are closed.