سلمان بابر بیگ جنسی ہراسانی کیس اور اعزاز سید

تحریر: فیاض ملک۔ بارسلونا، سپین

 

اعزاز سید کو ویسے تو لوگ صحافت کے ایک معروف نام کے طور پر جانتے ہیں لیکن مجھے آج ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک پنجابی لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ وہ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ کسی گاؤں دیہات میں رات کے کسی پہر کسی کے ہاں اچانک کچھ مہمان آ وارد ہوئے۔ بعد از طعام میزبان نے اپنے پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر ان سے ایک عدد چارپائی کی درخواست کی۔ اس شخص نے رات کے اس پہر چارپائی کا سوال سن کر سائل کو جواب دیا کہ ان کے گھر پر دو ہی چارپائیاں ہیں ایک پر وہ شخص اور اس کا ابا سوئے ہوئے ہیں جبکہ دوسری چارپائی اس کی ماں اور بیوی کے استعمال میں ہے۔ سائل نے شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹنے سے پہلے اس شخص کو نصیحت کی “منجی پاویں نہ دیو سون دی ترتیب ویرے ٹھیک رکھو” (چارپائی بے شک نہ دیں لیکن سونے کی ترتیب درست رکھیں)۔

معزز قارئین! پچھلے برس ان دنوں بارسلونا سے معزول ہو کر واپس جانے والے قونصل جنرل سلمان بابر بیگ کے خوب چرچے تھے۔ بارسلونا میں بسنے والے سیاسی، سماجی اور صحافتی پاکستانی نابغے جھاگ اڑاتے ہکلاتے اکھڑتے بھڑکتے بپھرتے تھے کہ سنبھالے نہ جا رہے تھے وجہ یہ تھی کہ آمنہ عمر نامی پاکستانی خاتون نے معزول کیے جانیوالے قونصل جنرل کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایت درج کروائی تھی۔ خاتون نے دو اڑھائی ماہ کی ذہنی اذیت کے بعد جب ملزم (جسے شاید مجرم لکھنا بھی غلط نہیں) کے خلاف شکایت درج کروائی تو سپین میں کاروائی شروع ہونے سے پہلے وزرات خارجہ نے سپین میں پاکستان کے سفیر شجاعت راٹھور کی ابتدائی تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے تین سفارتکاروں پر مبنی ایک تحقیقاتی ٹیم بارسلونا بھیجی جنھوں نے سلمان بابر بیگ کو قصوروار قرار دیتے ہوئے فی الفور سپین چھوڑنے اور دفتر خارجہ میں پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

اس خبر کو جب ہسپانوی ذرائع ابلاغ نے نشر کیا تو طوفان مچ گیا۔ کچھ لوگ ایک جتھا بنا کر قونصل کے سامنے جا پہنچے اور پھر کیا تھا ایک “کہنہ مشق صحافی” نے قونصل خانے کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ وہ بھی سلمان بابر بیگ ہے۔ ادھر سے آواز آئی کہ یہ پاکستان اور اسلام کے خلاف طاغوتی طاقتوں کی سازش ہے۔ کسی نے شکایت کنندہ کو بدکردرار قرار دیا تو کوئی اس بے چاری کے غدار ہونے کا اعلان کرتا نظر آیا۔ کسی کو یہ سوچنے کی توفیق نہ ہوئی کہ وزرات خارجہ نے سلمان بیگ کو قصوروار سمجھتے ہوئے واپس بلایا ہے یہاں کیس عدالت میں ہے اور ہم شکایت کرنے والی کے ہی خلاف نکل آئے ہیں۔ پاسپورٹ مافیا اور دیگر دونمبریوں کے کاریگر نوسر بازوں کو خوب موقع ملا کہ وہ سفیر شجاعت راٹھور اور سابق قونصل جنرل عمران چوہدری کے خلاف اپنا اپنا حساب چکتا کریں۔ سو اس کے لیے ان بدبختوں نے اس بے چاری متاثرہ خاتون کے خلاف یوں زبانیں دراز کیں کہ جس کی یہاں مثال نہیں ملتی۔

معزز قارئین! ذرا سوچئے اور اس قوم کی اخلاقی پستی اور ذہنی پراگندگی کا اندازہ کیجئے کہ دنیا بھر میں ہر روز خواتین کے حوالے سے صنفی بنیاد پر کیے جانیوالے ناروا سلوک کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ اور ان کے ملک اور اسلام کی عزت ان کے قونصل جنرل کی دم سے بندھی ہوئی تھی۔ اس سارے کھیل میں جو شخص اچھل اچھل کر سلمان بابر بیگ کی طرف جاتے تیر پکڑ رہا تھا وہ مرزا ندیم بیگ ہے۔ اس شخص نے اس خاتون کے خلاف کمال مکاری سے غلط بیانیوں اور جھوٹوں کا ایک طویل سلسلہ پھیلایا۔ اس شخص نے پھبتیاں کسیں، متاثرہ خاتون کو (مبینہ طور پر) مختلف لوگوں سے فون کالز کروائیں۔ اس شخص کو بارہا کسی بھی فورم پر بیٹھ کر بات کرنے کی دعوت دی مگر یہ کنی کترا گیا۔ ہم سب کے ویب پیج پر اس کے طرف سے پھیلائے گئے دو ایک جھوٹ کھول کر بیان کیے مگر کچھ اثر نہ ہوا۔

قریب دو ماہ قبل جب وزرات خارجہ کی طرف سے قائم کی گئی ایک کمیٹی نے سلمان بابر بیگ کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ اور اپنا موقف تحریری طور پر پیش کرنے کا کہا تو مرزا ندیم بیگ جو اس وقت پاکستان میں موجود تھا اس نے وہاں سے سوشل میڈیا پر عمران علی چوہدری اور شجاعت راٹھور اور متاثرہ خاتون کو رگیدنا شروع کر دیا۔ جس پر (مبینہ طور پر) عمران چوہدری نے اپنا سفارتی استحقاق بروئے کار لاتے ہوئے ایف آئی اے کو درخواست دے دی اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ آپ مرزا ندیم بیگ کی زبانی دیکھ، پڑھ اور سن چکے ہیں۔

معزز قارئین! اس ساری تمہید کے بعد میں اوپر بیان کیے لطیفے اور اعزاز سید کی طرف لوٹتا ہوں انھوں نے اپنے پروگرام ٹاک شاک میں اس کیس پر بات کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ خاتون نے شجاعت راٹھور اور عمران چوہدری کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست دی اور مرزا ندیم بیگ نے اس خاتون کی مدد فرمائی اور بقول سید صاحب کے ان طاقتور مجرموں (یعنی راٹھور اور عمران نے) حق سچ کے اس داعی کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی ہے۔ میں حیران ہوں کہ سید صاحب بالکل بنیادی بات سے ہی بے خبر ہیں اور ایک ٹیلیویژن چینل پر بیٹھ کر کسی تھڑا نشین کی طرح جو منہ میں آ رہا ہے بولے جا رہے ہیں۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ یہاں بارسلونا سے سید صاحب کو جب حقائق بتانے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بھی “مجاں مجاں دی بھیناں ہوندیاں نے” کے مطابق اپنی صحافتی مج کا ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ فرمایا ہے۔ اعزاز سید جب اس تحریر کو پڑھیں تو میری ان سے گزارشات ہیں کہ چلیں چیزوں کو دیکھنے پرکھنے کا کوئی معیار نہ سہی، صحیح غلط میں فرق بھی اس فلسفۂ مجاں کے آگے ہیچ سہی وطن عزیز میں افسر گردی بھی عام سہی۔ لیکن اپنے اس “مظلوم” سے پوچھیں تو سہی کہ اس کا سلمان بابر جنسی ہراسانی کیس سے کیا تعلق ہے ؟ اور اس بے چاری متاثرہ خاتون نے اس شخص کا کیا بگاڑا ہے ؟ مزید یہ کہ اپنی مج کا بھرپور ساتھ دیں لیکن ایک دکھوں کی ماری پردیس میں خوار ہوتی اس خاتون کے کیس کا حلیہ مت بگاڑیں، صحافتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور جو بھی کہنا ہو خوب تحقیق کر کے کہیں۔ مخے! ترتیب ٹھیک رکھو جناب!!!

نوٹ: نیوز ڈپلومیسی اور اس کی پالیسی کا رائٹرکے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Comments are closed.