حق ملکیت تحریک کے سرخیل،سرداربہادر علی خان آف راولاکوٹ

تحریر: محمد مقصود صابر،باغ آزادکشمیر

اسلام آباد: ڈوگرہ رجیم میں سال 1890 کی دھائی میں حق ملکیت اور مقدمہ کے کم و بیش تیس سال بعد منشی محمد دین فوق نے اپنی کتاب ” تاریخ اقوام پونچھ” لکھی تھی تاریخ مرتب کرنے کے لئے گزرے 30 سال زیادہ طویل یا زمانہ قدیم میں نہیں آتے کہ درست معلومات دستیاب نہ ہوں۔

 لہذا اس تاریخ اور اس تحریک کی درست معلومات کے لیے محمد دین فوق کے تحریر سب سے زیادہ مستند مانی جاتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ” پونچھ میں بندوبست کا آغاز ہوا تو زمین داروں کے حقوق ملکیت کی پامالی دیکھ کر سردار بہادر علی خان سدھن سکنہ کھڑک نے اہالیان ریاست پونچھ کی سنگین حق تلفی پر پہلے عوام الناس کو منظم کیا اور پھر بہترین منوبہ بندی کیساتھ لاہور کی عدالت میں حکومت ہند کے پاس دعوی دائر کر دیا” مسٹر سکھدیو سنگھ نے” پونچھ تاریخ و ثقافت ” مولوی میر عالم نے ” تاریخ آزادی کشمیر ” میجر طلاء محمد خان سدوزئی نے ” مخزن طلاء، سید محمود آزاد، نے ” تاریخ کشمیر ” سردار عارف سدوزئی نے” تاریخ سدھن قبائل” ، سردار بشیر سدوزئی نے ” پونچھ جہاں سروں کی فصل کٹی ” اور سید بشیر حسین جعفری نے بھی اپنی تصنیف ” تاریخ سدھن (سدوزئی ) قبیلہ ” سردار صابر حسین صابر نے اپنی شعرہ أفاق تصنیف “سمیط سدوزئی” میں اس تحریک کے حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے ۔مقدمہ کی پیروی کے لیے ایک معروف انگریز وکیل’’ پٹون‘‘ کی خدمات حاصل کیں جس کو اس وقت دو ہزار روپے فیس ادا ہوئی۔اس وقت درمیانی درجہ کے سرکاری ملازم کی تنخواہ دو روپے ماہانہ تھی۔

مقدمہ کی پیروی پر اٹھنے والے اخراجات سردار بہادر علی خان کے پانچ بھائیوں کے علاوہ بھنگو (ہجیرۃ) کے سردار مستانہ خان اور ٹائیں کے سردار اسماعیل خان نے برداشت کیے۔سردار مستانہ خان اس زمانے میں مری میں ٹھیکیدار، ( بلڈر) تھے ۔ شنید ہیکہ ان کے خاندان کی آج بھی مری میں عمارتیں اور جائیداد موجود ہے ۔

ڈوگرہ مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر اور راجہ پونچھ نے سردار بہادر علی خان کو وادی پرل بطور جاگیر اور پونچھ ریاست میں بطور نائب وزیر اعظم تعیناتی کی لالچ دی کہ وہ اس مقدمہ سے دستبردار ہو جائیں۔ انہوں نے نہ مانا تو ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں ان کے بھتیجے اور دیگر ، سردار مختار خان، سردار حیات خان، سردار مناظر علی خان، سردار نواب خان ،سردار محمد شیر خان، سردار فقیر خان، سردار مدد خان، سردار محمد بخش اور دیگر شامل تھے۔

سردار بہادر علی خان نے اس ناانصافی کے خلاف اپنے وکیل کے ذریعے ریذیڈنٹ کشمیر کو تار بھیجی کہ گرفتار افراد کو غیر مشروط رہائی نہ دی گئی تو مقدمہ دائر کیا جائے گا ۔ ریذیڈنٹ کی مداخلت پر گرفتار لوگوں کو رہا کیا گیا۔ سردار بہادر علی خان مقدمہ کی پیروی کے لیے سیکڑوں میل پیدل سفر کرتے تھے ۔ سردار اسماعیل خان اور سردار مستانہ خان اس سفر میں اکثر ان کے ہمراہ ہوتے۔ وکیل کی مشاورت پر چند ضروری کاغذات کے لیے وہ لاہور سے واپس راولاکوٹ کی طرف آ رہے تھے کہ راستے میں مہاراجہ ریاست اور راجہ پونچھ کے حواریوں نے ان کو زہر کھلا دیا جس کے باعث تحریک حق ملکیت کے بانی اور داعی سردار بہادر علی خان بہارہ کہو کے قریب سترہ میل کے مقام پر انتقال کرگئے ۔

سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سردار شریف نے ان کے انتقال کی تاریخ 25دسمبر 1902 لکھی ہے جب کہ مولوی میر عالم نے 3-پوہ 1959بکرمی ( دسمبر 1902ء یا جنوری 1903ء) لکھا ہے ۔ بعض روایات ہیں کہ ان کے جوتے میں زیر ڈالا گیا تھا اور یہ خیال بھی ہے کہ راستے میں جہاں انہوں نے کھانا کھایا وہاں زیر دیا گیا۔ میجر طلاء محمد خان سدوزئی، منشی محمد دین فوق ، سید محمود آزاد، سردار عارف سدوزئی، جسٹس محمد شریف خان اور بشیر سدوزئی اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ سردار بہادر علی خان کو راجہ بلدیو سنگھ نے اپنے آدمیوں کے ذریعے زیر کھلا کر ہلاک کیا۔ سردار بہادر علی خان کی وصیت تھی کہ یہ مقدمہ جیتنے سے پہلے میرا انتقال ہو گیا تو اس علاقے میں مجھے نہ دفنایا جائے۔ان کی وصیت کے مطابق ان کو ٹائیں کے مقام پر دفن کیا گیا۔

 

ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی سردار گوھر علی اور سردار اسماعیل اس مقدمہ میں دوسروں کے ساتھ پیش پیش رہےجب کہ سردار مستانہ خان بطور مالی سرپرستی کرتے رہے۔ مولوی میر عالم نے لکھا ہے کہ اس مقدمہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ، اگرچہ ملکیت لفظی نہ مل سکی مگر معنی کے اطوار سے ملکیت کے سب حقوق مل گئے اور خانہ ملکیت میں حق آسامی درج کرنے کی اجازت مل گئی۔حق آسامی مالک کی طرح داخلی اور خارجی سب حقوق کا زمین دار کو مالک قرار دیا گیا۔

مسٹر سکھدیو سنگھ نے لکھا ہے کہ” 1906ء میں بندوبست بھی مکمل ہوا اور فیصلہ بھی، اس تحریک سے زمین پر کسی کی بھی ملکیت تسلیم نہیں کی گئی۔اپنا حق تسلیم کرانے کے لئے ریاست کے طول و عرض میں عوام نے بہت بڑا ایجی ٹیشن چلایا مگر حکومت نے سختی سے دبا دیا ۔ اس تحریک سے فائدہ یہ ہوا کہ 1908ء میں ریذیڈنٹ کشمیر جب پونچھ آئے تو انہوں نے لفظ ” اسامی” درجہ دھی تسلیم کیا جو زمین کی ملکیت کا اختیار دیتا ہے ” ۔ ایک اور جگہ لکھا کہ ” زمین کے بندوبست کی اصلاحات میں کامیابیوں کا سہرا سدھنوں کے سر ہے یہاں کے لوگوں کی طبعیت ہمیشہ آزاد اور سرکش رہی ہے ” سردار بہادر علی خان سدھن کے ساتھ اس میں تعاون کرنے والوں کی طویل فہرست ہے جو ان کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے جن کے حوالے اوپر دئے گئے ہیں۔

ریاست کے عامۃ الناس کے حقوق کیلئے اپنے خون پسینے وقت جان اور مال کی بے پایاں خدمات اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ہیروز کے کارناموں سے ہمیں اپنی نئی نسل کو کو روشناس کروانا ہو گا اور ہمیں ایک دوسرے کویاد دہانی اور تذکرہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔

اے شہیدو ! وفا کی تصویرو

وطن کی ہوائیں تمہیں سلام کہتی ہیں

 

Comments are closed.