لوگ آسان سمجھتے صحافی ہونا۔۔۔۔
مین اسٹریم میڈیا گزشتہ3روز سے سینٹ کی نمبر گیم غلط چلا رہا ہے،یعنی اپوزیشن53 اور حکومت47,یہ سو فیصد غلط ہے،میں ثابت کر رہا ہوں، اس تحریر میں انشا اللہ،باقی یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ یہ مین اسٹریم میڈیا کی بدنیتی ہے یا نا اہلی،کیونکہ انہوں نے پہلے بھی قومی اسمبلی کی نمبر گیم غلط چلائی۔
سینٹ میں پیپلز پارٹی 20، نواز لیگ 18، جے یو آئی 5، اے این پی 2، نیشنل پارٹی 2, پی کے میپ 1 اور بی این پی مینگل کی 1 نشست ہے اور یہ ہوئے 49 ٹوٹل
تحریک انصاف 26، باپ 13 ، ایم کیو ایم 3، ق لیگ 1 اور جی ڈی اے کی 1 نشست یہ ہوئے 44, آزاد ارکان 6 جیتے، 4 فاٹا سے، 2 بلوچستان سے، فاٹا کے 3 حکومت کا حصہ ہیں اور 1 اپوزیشن پیپلز پارٹی کا، بلوچستان سے عبدالقادر، حکومت کا حصہ ہے اور نسیمہ احسان دونوں طرف کے ووٹوں سے جیتی۔
یوں اپوزیشن کے ہوگئے 50 کنفرم اور حکومت کے ہوگئے 48 ، یہ بنے 98, ایک جماعت اسلامی کا 99 اور ایک نسیمہ احسان, کل ہوئے 100، نسیمہ احسان کا تعلق بی این پی عوامی سے رہا ہے جو پی ڈی ایم میں شامل نہیں، ہاں اس مرتبہ اسے بی این پی مینگل نے بھی سپورٹ کیا، یعنی یہ “بسکٹ سینیٹر” ہیں
اگر بسکٹ سینیٹر، نسیمہ احسان کو بھی اپوزیشن کے کھاتے میں ڈال دیں تو اپوزیشن کے کل ہوئے 51 اور حکومت کے 48, جبکہ 1 جماعت اسلامی کا، اب آجائیں اسحق ڈار کی طرف جو یقینا اتنے “تیز اور دلیر” نہیں کہ لندن سے ووٹ ڈالنے آجائیں، یعنی اپوزیشن کے پھر بچ گئے 50, حکومت کے 48 اور جماعت اسلامی غیر جانبدار (ابھی تک )
اور اب بتانے لگا ہوں وہ بات، جو ابھی تک پتہ نہیں کسی نے کیوں نہیں بتائی یعنی آئین کیا کہتا ہے، چیئرمین سینٹ کو 100 کے ایوان میں انتخاب جیتنے کے لئے ہر صورت 51 ارکان چاہیئیں، چاہے اس دن کوئی لندن میں ہو، کوئی غیر حاضر ہو یا کوئی غیر جانبدار۔۔۔۔چاہے ہاوس میں 99 بندہ ہو 98 ہو یا چاہے 90 بھی
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ اگر ووٹ برابر ہوگئے تو دوبارہ پولنگ ہوگی اور اگر اپوزیشن 51 ووٹ نہ لے سکی تو صادق سنجرانی ہی چیئرمین سینٹ رہیں گے چاہے انہوں نے 51 سے کم ووٹ لئے۔ اور معاملہ ہے بھی خفیہ ووٹنگ، اس لئے بدلے بدلے سے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔
اور ہاں ترپ کا ایک پتہ یہ ہے کہ نواز لیگ کے دلاور خان نے پہلے بھی سنجرانی کو ووٹ دیا تھا، ان پر ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ2018میں جب نواز شریف صاحب نا اہل ہوئے تھے تو ان کے جاری کئے سینٹ کے پارٹی ٹکٹ کالعدم ہوگئے تھے اور نوا ز لیگ کے سینیٹر “آزاد” جیتے
میری اس تحریر کے بعد ایک “بڑے” صحافی کا، کل کا کالم پڑھیں، وڈے اینکرز، ویلے کالم نگاروں کے تجزیئے سنیں اور اس بات پر ماتم کریں کہ ہم اپنے بچوں کے لئے کیسا پاکستان چھوڑ کر جائیں گے ، جہاں اس قسم کے لوگ سب سے بڑے “دانشور” ہیں، افسوس!
صرف یہی نہیں، اس بات پر بھی سر پیٹیں کہ اس معاشرے کے “باغی” عمران خان کو ترجمانوں کی جو فوج ظفر موج ملی ہے وہ اپنا “کام” کتنا کر رہی ہے اور کتنا عمران خان کو “بیچ” رہی ہے، رہے نام اللہ کا۔
نوٹ : اعداد وشمار سینٹ کی ویب سائٹ سے لئے ہیں، انسان ہوں غلطی ہوسکتی ہے، ایسا ہوا تو معافی مانگ لوں گا کیوںکہ سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے، درخواست صرف اتنی ہے کہ مجھے پتہ ہے غلطی دوسروں سے بھی ہوسکتی ہے بس تقاضا صرف یہ ہے غلطی کریں مگر اپنی محنت اور تحقیق کرنے کے بعد، یہ نہیں کہ واٹس ایپ پر آئی معلومات کو یونہی آگے بڑھادیں۔
Comments are closed.