جنگ عظیم دوئم کی ہولناک نتائج کے بعد یہ خیال سامنے آیا کہ مسلح تصادم کے خون ریز نتائج میں اور آنے والے وقتوں میں ایسے تصادم کی صورت میں انسانی دُکھ اور تکلیفوں میں کمی آنی چاہیے۔ اسی خیال کی کوکھ سے12 اگست 1949 کوچار جنیوا کنونشنز نے جنم لیا۔
ان معاہدات نےبین الاقوامی قوانین کے کچھ جدید معیارات مقرر کیے جو دورانِ جنگ اُن لوگوں کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں جو یا تو شروع سے ہی جنگ کا حصہ نہیں ہیں (بشمول عام شہری، طبی اہل کار اور امدادی کارکن) یا پھر جنگ میں شرکت کی اب وہ سکت نہیں رکھتے، جیسے زخمی ، بیمار، خستہ حال فوجی اور جنگی قیدی۔
ان کنونشنز کو اختیار کیے ہوئے 70 سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔اس پورے عرصے میں بہت کچھ بدل چکا ہے،یہاں تک کہ اب خود جنگ کے اپنے طور طریق بھی بدل چکےہیں۔ ریاستوں کے مابین رہنے والے وہ روایتی تنازعات جو پہلے معمول کی حیثیت رکھتے تھے اب استثنائی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ پہلے کی نسبت اب جنگ کی شکلیں پیچیدہ اور غیر متناسب ہوگئی ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی اس تبدیلی کے پیش نطر ناقدین نے 1949 کے کنونشنز کی عصرِ حاضر کے ساتھ مطابقت پر سوال اٹھایا ہے۔ جن کے اطلاق کا دائرہاصولی طورپرصرف بین الممالک(بین الاقوامی)تنازعات تک ہے۔ تیسرےجینیوا کنونشن کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات ظاہر کیے گئے ہیں، جس کے تحت جنگی قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کیا جاتا ہے اور بین الممالک مسلح تصادم کے ساتھ خاص نہیں ہے، جبکہ یہ تنازعات آج پہلے سے کہیں زیادہ موجود ہیں۔ بادی النظر میں یہ دلائل خاصے دلچسپ لگتے ہیں،تاہم تفصیلی معائنے اور جائزے کے بعد ہم یہ دیکھتے ہیں کہ 1949 کے کنونشنز، بشمول تیسرے جینیوا کنونشن کے، نہ صرف یہ کہ اپنے وقتوں میں مطلوبہ نتائج دیے بلکہ آج کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہے۔
سب سے پہلے چار جنیوا کنونشنز میں نافذ کردہ قواعد، جن میںجنگی قیدیوں کے حوالے سےجدید قواعد شامل ہیں، کا اطلاق بین الممالک تصادم کے علاوہ کی صورتِ حال پر خصوصی معاہدوں کو بروئے کار لاتے ہوئےفریقین کے ذریعے کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ متعدد غیر ریاستی مسلح گروہوں نے کنونشنز میں نافذ کردہ قواعد کی پاسداری کے یکطرفہ ارادے ظاہر کیے ہیں۔جیسا کہ خاص طور پر جینیوا کنوینشن سوئم کی پاس داری کے حوالے سے الجزائر کی قومی لبریشن فرنٹ اور ابھی حال ہی میں نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ کی مثال سامنے آئی ہے۔ اگر چہ اس طرح کے وعدے احترام میں اضافے کی ضمانت نہیں ہیں مگر پھر بھی انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے جنیوا کنونشنز کے نگہبان ادارے کے طور پرعالمی معاون برادری کے تعاون سے ایسی جماعتوں کو پیروی پر آمادہ کرنے کے لیے ان وعدوں کو بروئے کار لائی ہے۔
دوم، چونکہ زیادہ تر ریاستیں تصادم میں براہ راست شمولیت سے کنارہ کرلیتی ہیں اور اپنی جنگی کارروائیوں کو غیر ریاستی اداکاروں کے حوالے کرنا شروع کردیتی ہیں، تو وہاں پھر یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ پہلے سے موجود غیر ریاستی مسلح تصادم کو کسی بین الاقوامی مسلح تصادم کے متبادل کے طور پر لیا جائے۔ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب مداخلت کرنے والی خارجی ریاست غیر ریاستی مسلح گروہوں پر قابو پانے کے لیے نت نئے حربوں کا استعمال شروع کردے۔بشرطیکہ غیر ریاستی مسلح گروہ کا طرز عمل اس ریاست کی طرف منسوب ہوگا اور اس کے نتیجے میں تنازعہ کا شکار ہونے والی دوسرا فریق بھی 1949 کے کنونشنز کا اطلاق پوری طرح سے یقینی بنائے گا۔
تیسرا،یہ بات ہرگز نہیں بھلائی جانی چاہیے کہ پی او ڈبلیو پر عمل درامد آج بھی جاری ہے۔ اسی حوالے سے ابھی گزشتہ برس آئی سی آر سی نے 1274 جیلوں کا کا دورہ کیا جہاں ایک لاکھ سے زیادہ قیدی موجود تھے۔ یہ اعداد و شمار محض اس بات کا ثبوت ہے کہ تحفظ فراہم کرنے والے ایک ایسے نظام کی بہر حال ضرورت ہے ۔ جو جنگی قیدیوں کے ساتھ عزت و احترام والے سلوک کو یقینی بنائے۔
اسی انداز میں، بین الاقوامی مسلح تصادم کی صورتیں پہلے کی نسبت اگر چہ اب کم ہیں مگر یہ بدستور سامنے کی ایک حقیقت ہیں۔اس طرح کے تصادم کو اپنے روایتی معنوں میں باقاعدہ اعلانِ جنگ کے بعد ہونے والی ’جنگوں‘ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ مسلح تصادم تو اپنے قانونی معنی میں کسی بھی ریاست کے ذریعے کسی بھی اعلان یا مسلح طاقت کے استعمال پر شروع ہوجاتا ہے۔اس سے قطع نظر کہ اس اس کی مدت کیا ہے اور شدت کتنی ہے۔
لہٰذا جنگی قیدیوں کو فراہم کردہ تحفظات بڑے پیمانے پر دشمنیوں اور الگ تھلگ واقعات کے دوران پکڑے جانے والوں پر یکساں طور پر لاگو کیے جائیں گے۔ایک اور طرح سے دیکھیں تو تیسرے جنیوا کنونشن کے تحت جنگی قیدیوں کے لیے مخصوص تحفظات کا اطلاق عام طور پر اسی وقت ہونا چاہئے جب وہ شخص مسلح افواج کے اہل کارکی حیثیت میں کسی دوسری ریاست کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔ جیسا کہ پچھلے سال ونگ کمانڈر ابھینندن کے معاملے میں ہوا تھا۔
اس وسیع اطلاقی دائرہ کار کی وجہ سے ریاستوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جنیوا کنونشنز کے احترام اور اعتبار کو یقینی بنانے کے لیے بروقت تیاری اور منصوبہ بندی کریں۔زمانہ امن میں باقی ذمہ داریوں میں جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزیوں پر تعزیری پابندیاں عائد کرنے والے کو اپنانا اور ان پر عمل درامد کرنا بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شہری آبادی میں جتنا ممکن ہو سکے جنیوا کنونشنز کے بارے میں آگہی پھیلائی جائے اور مسلح افواج کی ساتھ تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جائے۔اس سے نہ صرف یہ کہ جنیوا کنونشنز کے لیے احترام بڑھتا ہے بلکہ مسلح تنازعات کے دوران ہونے والی انسانی پریشانیوں کی روک تھام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
اگر چہ یہ تبھی ممکن ہے جب قواعد پر اسی طرح عمل درامد کیا جائے جس طرح کہ وہ قواعد کاغذوں میں درج ہیں۔تنازعات کی بدلتی فطرت کی طرح قانون بھی جمود کا شکار نہیں رہتا ہے اور نئے چیلنجوں اور پریشانیوں کے مطابق حالات میں ڈھل کر جدید سے جدیدتر ہوتا رہتا ہے۔اس کے مطابق کنونشنز کے نفاذ کے ذمہ داران کو موجودہ تناظر میں تصادم کے ماحول کے مطابق اس کا اطلاق کرنا ہوگا،جیسا کہ پچھلے ستر سالوں میں قائم ہونے والی قانون و نفاذکی نظیروں سےہمیں پتہ چلتا ہے۔
یہ وہی خلا ہے جس کا احاطہ تیسرے جنیوا کنونشن کے حوالےسے حال ہی میں جاری ہونے والی دستاویزی فلممیں کیا گیا ہے۔آئی سی آر سی کے وسیع منصوبے کے ایک حصے کے طور پر چاروں کنونشنز پر تبصروں کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے، جو 1960 کی اصل دستاویزی فلموں پر استوار ہے، اب مسلح تصادم کے قانون میں جدید پیشرفتوں کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔
اس کے مطابق، تازہ ترین کمنٹری کنونشن کی موجودہ ترجمانیوں کی عکاسی کرتی ہے اور گذشتہ ستر برسوں سے تنازعات میں کنونشن کی تشریح اور اس کے اطلاق میں عملی تجربے کو مدنظر رکھتی ہے۔ نئے معاہدوں ، معیارات ، ثالثی ایوارڈز ، اور کیس لاء — ملکی اور بین الاقوامی کی شکل میں قانون میں اس کے بعد ہونے والی پیشرفت اور آخر میںجنگی قیدیوںک ے تحفظ کے سلسلے میں آئی سی آر سی کے تجربے کو مدنظر رکھتی ہے۔
اس پس منظر میں، کمنٹری نے بڑی تفصیل سے بیرونی دنیا کے ساتھ جنگی قیدیوںک ے ساتھ مواصلاتی ربط ضبط کے سلسلے میں ٹیکنالوجی کے استعمال، متعدد شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے تیار کردہ مواد، خواتین بچوں اور معذور افراد سے متعلق معیارات، رازداری اور ڈیٹا کا تحفظ، طبی سہولیات کے معیار اور دستاویزات کی تعمیل کی مثالوں پر جو اکثر نظرانداز کیے جاتے ہیں کے بارے میں بتایا ہے۔
آج چار جنیوا کنونشنز عالمی سطح پر تصدیق شدہ ہیں اور ان کے تحت قواعد عالمی طور پر قابل اطلاق ہیں۔ بلا شبہ ، کنونشنز اور خاص طور پر تیسرا جنیوا کنونشن آج بھی اتنا ہی متعلق ہے جتنا وہ 1949 میں متعلق تھا۔ اپنے وقت کے ساتھ ہم آہنگی کے سوال کی بجائےاس بات پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی کہ عہد حاضر کے جنگی میدانوں کو سامنے رکھتے ہوئے کنونشنز کی تعمیل کو کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
اس مقصد کے لیے تیسرے جنیوا کنونشن کا تازہ ترین تبصرہ عملی نظریہ اور آج کل حراستوں سے نمٹنے والوں کے لئے حوالہ کا ایک نیا نقطہ ہے۔مسلح تنازعات میں اپنی آزادی سے محروم افراد کے ساتھ انسانی سلوک کو یقینی بناتے ہوئے پوری دنیا کی مسلح افواج ، اپنی تربیت ، آپریشنز اور دستورالعمل میں تیسرے جنیوا کنونشن کے تازہ ترین معیاروں کو مربوط کرکے بہت فائدہ اٹھائیں گی۔
شایان احمد خان پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے ماہر ہیں، وہ ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء میں سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پر خدمات دے رہے ہیں جب کہ شایان احمد خان انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کریسینٹ کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ برائے بین الاقوامی انسانی حقوق منسلک ہیں۔ ان سے درج ذیل موبائل نمبر یا ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
Cell #: +92321-7966875 Twitter Handle:@shayanahmed_k
Comments are closed.