سیالکوٹ ایئرپورٹ، بد انتظامی کی مثال یا اوور لوڈڈ؟پردیس سے دیس پہنچنے والوں کے ساتھ کیا بیتی۔۔۔
تحریر: عمیر ڈار
جی ٹی روڈ پر دھکے کھانے والے گجرات، گجرانوالہ اور آزاد کشمیر کے عوام کے لیے سیالکوٹ ایئرپورٹ کسی تحفے سے کم نہیں تھا۔ ہمارے شہر جلالپورجٹاں سے تقریبا 25 منٹ کی مسافت اور چھوٹا ہونے کی وجہ میں یہ ہمیشہ میرا فیورٹ رہا، فلائٹ اترنے کے بعد آدھے گھنٹے سے 45 منٹ تک آپ باہر ہوتے، نیز عملے کا رویہ بھی کافی دوستانہ اور تعاون سے بھرپور ہوتا۔ ایک بار میں جلدی میں پینٹ کوٹ بھول گیا تو دو ہفتوں بعد مجھے پوری ایمانداری کے ساتھ واپس کیا گیا۔
اب آئیے موجودہ حالات کی طرف۔ 24 جولائی کی صبح ہم بارسلونا بذریعہ قطر سیالکوٹ پہنچے۔ ماضی کے حسین تجربات کے پیش نظر، امید تھی کہ ایک گھنٹے میں گاڑی میں ہوں گا۔ جہاز سے نکلتے ساتھ ہی ہمیں ریپڈ کورونا ٹیسٹ کے لیے ٹوکن دیا گیا، میرا 40 نمبر تھا۔ ہم ہال میں پہنچے تو اپنی باری کا انتظار کرنے لگے، مگر کچھ منٹ ہی گذرے تھے کہ ہال مچھلی منڈی سے بدتر منظر پیش کرنے لگا، پوری دنیا میں لائنیں بنانے والے پاکستانیوں نے تہذیب کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے، ٹیسٹ کے لیے نمبر پکارنے والے شخص کو ایسے گھیر جیسے معصوم دوشیزہ کو غنڈے گھیرتے ہیں، سب کو جلدی تھی، ہلکی پھلکی گالی گلوچ، دھکم پیل، پھر وہی روایتی جملے سننے کو ملے، تم لوگوں کو ہم باہر سے پیسا بھیجتے ہیں اور تم ہمارے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہو۔
نمبر پکارنے والے جناب بھی نیوٹن سے کم نا تھے، کسی کو بغیر ٹوکن بھیج رہے ہیں، کسی سے بدتمیزی کر رہے ہیں، کسی کو فارم فل کرنے کا کہہ رہے ہیں، عجیب منظر۔ اس سارے ماحول میں میری نظریں ان پاکستانی نثراد بچوں پر تھی جو پہلی دفعہ پاکستان آ رہے تھے اور حیران کن بلکہ پریشان نظروں سے سب کو دیکھ رہے تھے۔
ناک میں تیلی گھمانے کے پراسس سے فارغ ہوئے تو امید تھی کہ امیگریشن جلدی جلدی ہو گی مگر آگے تو سیکڑوں افراد کے لیے دو افراد تھے، ایک لائن فیملیز اور دوسری باقی افراد کے لیے اور رفتار انتہائی سست۔ ایک لمبے انتظار کے بعد جب ہماری باری آنے لگی تو پتہ چلا کہ بطور ہسپانوی شہری، پہلے ہم نے ویزہ کی ویریفیکیشن کروانی ہے کیونکہ ایف آئی اے کرنے والوں کے پاس ڈیٹا تک رسائی نہیں اور ویریفیکیشن کرنے والے کائونٹر پر کوئی شخص موجود ہی نہیں، خیر پھر ایک لمبے انتظار کے بعد، امیگریشن کرنے والے افراد میں سے ایک نوجوان آئے اور انہوں نے مجھ سے آگے والے شخص کی ویب سائٹ سے دیسی طریقے سے ویزہ ویری فائی کی.
اتنی دیر میں امیگریشن لائن کی لمبائی میں مزید اضافہ ہو چکا تھا، ایک ایک فیملی پر 20 سے 30 منٹ، چھوٹے چھوٹے بچے مائوں کے ہاتھوں میں بلک رہے تھے، 14، 18 حتی کہ 20 گھنٹے سفر کے بعد، تھکاوٹ کے مارےسب کا برا حال تھا، بالخصوص عمر رسیدہ خواتین تو شدید تکلیف میں نظر آ رہی تھی۔ اتنے میں یورپ میں ناک کی سیدھ میں چلنے والے، ڈنکی لگا کر، بمعہ اہل و عیال، پیچھے سے آگے آ کر امیگریشن کروانے کے چکروں میں تھے۔ ان حالات کے پیش نظر روایتی لڑائیاں، بڑھکیں سننے کو ملی، بد معاشی کے طعنے دیے گئے اور حالات لڑائی تک پہنچ چکے تھے، میں یہ سب دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ ابھی سیکورٹی ادارے آئیں گے اور انکو سمجھائیں گے، لائن سیدھی کروائیں گے، حق داروں کو حق دلوائیں گے مگر وہ تو اپنی کمانڈوں والی وردیاں پہن کر بس ماڈلنگ میں مصروف تھے۔
اس سے پہلے کہ وہاں کشتی شروع ہوتی، مجھے بڑی مشکل سے ملا ہوا سرخ پاسپورٹ چھوڑ کر، دونوں پارٹیوں کو علیحدہ کروانا پڑا۔ جب کائونٹر پر واپس پہنچا تو سیکورٹی والا پوچھ رہا تھا، بھائی جان وہاں کیا کرنے گئے تھے اور وہاں ہوا کیا تھا؟ تو میں نے جواب دیا، جناب آپکی ڈیوٹی کرنے گیا تھا اور جو ہو رہا ہے وہ لاقانونیت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
خِیر پھر سب معمول کے مطابق رہا، لائنیں پیچھے لگی رہیں، بچوں کی رونے کی آوازیں آتی رہی البتہ سیالکوٹ آنے والوں سے گذارش ہے کہ آتے وقت ان چیزوں کا خیال رکھیں
۔ اپنے پاس ٹریک اپلیکیشن اور ای ویزہ کو ضرور پرنٹ کریں، حالانکہ وہ الیکٹرونک ڈاکومنٹ ہے مگر یہاں پر ہر جگہ پرنٹ کاپی مانگتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ڈیٹا تک کوئی رسائی نہیں۔ پورے ایئرپورٹ پر ایک بھی پرنٹر موجود نہیں، دھکے اور انتظار کرنا پڑے گا۔
ایئرپورٹ والوں سے گذارش ہے کہ سیکورٹی عملے کو ایکٹیو کریں، قانون پر عمل درآمد کروائیں، لائنوں میں لگنے اور انتظار کے بعد معلومات دینے کی بجائے، گائیڈ کرنے والا عملہ جاب پر رکھیں،
ایئر پورٹ کسی بھی ملک کا چہرہ ہوتا ہے، ہماری پوری فلائٹ میں کوئی غِیر ملکی شہری نہیں تھا، اگر کوئی ہوتا تو ہم نے ان کو یہ گالی گلوچ اور بدنظمی والا چہرہ دکھانا تھا؟ ہم اپنی پاکستانی نثراد بچوں کو کونسا پاکستان دکھا رہے ہیں؟ اگر ہم سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمہیں اپنی عادتیں بدلنا ہو گی اور ریاست کو قانون کی پاسداری کروانا ہو گی۔
Comments are closed.