پاکستانیوں کی سپین آمد،پرانے سیٹلز نے نئے آنے والوں کو راہ دکھائی
ہسپانیہ نامہ قسط ۷ از ڈاکٹرعرفان مجید راجہ
اِس نگر میں وہ سیماب صفت رہتے ہیں جن کے پاپوش سے ملائکہ تبرک حاصل کرتے ہیں۔ اِن کی حیات میں اسباق کا اِک جہاں ہے۔ عام لوگ جنھوں نے مہ و سال اِس اُمید پر کاٹے کہ اُن کی اولادیں وہ مقام پا لیں جس کی وجہ سے اُنہوں نے جاڑوں کی کپکپاہٹ کو اوڑھااور پگھلتی دھوپوں کو سروں سے لپیٹا اور اپنے پُرکھوں سے اتنی دُور جا بسے کہ اکثر اُن کی مرگ پر تب پہنچے جب وہ خاک کی دبیز تہ میں دفنائے جا چُکے ہوتے۔ خدا کی سُنت یہی ہے کہ تناور درختوں کی جڑیں دبیز تہوں میں ہوتی ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے میرا خیال ہے کہ پہلے اُن معاملات کو نمٹا لیا جائے جنھیں عُلما کے ہاں “اشکال” پیدا ہونا کہتے ہیں۔ مشہور (میرے نزدیک انتہائی ضعیف اور چُغد) روایت ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کو مزید پچیس تیس سال لگیں گے ترقی کے لیے جب کہ اِس کمیونٹی نے جتنی ترقی گزشتہ پچیس برس میں کی ہے وہ کسی طور حضرت سلیمان علیہ الصلواۃ والسلام کے دور کے جنات کی رفتار سے کم نہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کمیونٹی نوزائیدہ ہے اِس لیے اِس میں تعلیم، فن اور ادب کو پنپتے وقت لگے گا۔
مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۹۸ تا ۲۰۰۰ عیسوی سے بہت پہلے اِسی کمیونٹی کے بزُرگ ادب، تعلیم اور فن کی داغ بیل ڈال چُکے تھے، وہ پنیری لگا چُکے تھے اور اپنی اوالادوں کو پنپتے دیکھ رہے تھے۔ سماجیات میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے اور لگاتار رہنمائی کر رہے تھے۔
اِن سالوں میں جو پاکستانی تارکینِ وطن کا سیلاب آیا اُس میں حق بات یہ ہے کہ اِن کی محنت اور کاوشوں کا صدقہ بہت سے بہنے اور ڈوبنے سے بچ گئے۔ یہی پرانے “سیٹلرز” تھے جنھوں نے نئے ریلے کو برداشت کیا، رستہ دکھایا، شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور اِنہیں آباد ہونے میں مدد دیتے رہے ورنہ ریلے کی اکثریت نے تو دھڑا، گاؤں، شہر اور ذات پات جیسی بندیوں کو رواج دیا۔ میں کُچھ مثالوں سے منظر نامے کو واضح کیے دیتا ہوں۔
راجہ محمد عارف، افضال احمد بیدار، محمد رشید بٹ صاحب، غلام مصطفیٰ ہاشمی، شکیل ملک، راجہ شفیق کیانی، چوہدری امانت حسین وڑائچ، مرزا اسلم بیگ، جاوید الیاس قریشی چیدہ چیدہ مثالیں ہیں اور سبھی پرانے ہیں اور اگر اِنہیں سینئر سیٹیزن بھی کہہ لیا جائے تو اُمید کی جانی چاہئیے کہ بُرا نہیں منائیں گے۔ بُرا منا بھی لیں تو میری کہانی اور طبیعت پہ کُچھ فرق یا اثر نہیں پڑتا کہ میں نے شاذ ہی کوئی اثر قبول کیا ہے اور اگر کیا بھی ہے تو وہ بے اثر ہی رہا ہے۔
اوّل الذکر راجہ محمد عارف صاحب کو لیجیے۔ آپ نے اکبر الہ آبادی کے شعر کی رُوح کے عین مطابق حیات جہدِ مُسلسل میں کاٹ دی۔ عادتاً ٹھیٹھ ہسپانوی ہوتے ہوتے بال بال اِس لیے بچ گئے کہ پچاس سال میں گھر کا مُنہ مبالغہ سے ٹھیک ٹھاک کام لیا جائے تو دس نہیں تو بارہ مرتبہ دیکھا ہو گا۔ شادی ہسپانیہ میں کی، اولاد یہیں پیدا ہوئی، پروان چڑھی، اعلیٰ عہدوں پر پہنچی۔ راجہ صاحب نے پاکستانیوں کا جمِ غفیر لیگل کروا رکھا ہے کہ جن دِنوں یہ اوبرا کے کاروبار میں اِن تھے اُن دِنوں خال خال ہی کوئی پاکستانی “پریساریو” تھا۔ ددھیال اور ننھیال، عزیزوں اور دُور پار کے رشتہ داروں اور اُن کے جاننے والوں کو کھینچ کھینچ کر کام دیا اور دِلوایا، کاغذات بنوائے اور جب سب مکمل “سیٹ” ہو گئے تو راجہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کی عُمر ہو گئی۔ اِس عُمر کے متعلق مشہور ہے کہ اکثر اپنے پرائے ہو چُکے ہوتے ہیں اِس لیے یہاں اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ راجہ صاحب سے اب اگر کوئی مِل لے تو بسم اللہ اور نہ مِلے تو اللہ اللہ۔
میں جب سیر و تفریح کے لیے ہسپانیہ آتا تو راجہ محمد عارف صاحب کی بیگم محترمہ خُولیا دِیاس گارسیا کے دعوت نامہ پر آیا کرتا۔ راجہ صاحب کی معیّت میں روز و شب کا چکر چلتا، اللے تللے ہوا کرتے۔ میری تعلیم کے سفر کو جاری رکھنے میں اِن کی معاونت گراں قدر ہے۔ ابا جی کو لالا جی کہتے تھے اور دادا ابا، حق فردوس نشین کرے، کے منجھلے بیٹے ہیں۔ دادی اماں، خدا اگلے جہان کا بھلا کرے، کو بے بے کہا کرتے تھے۔ اُن کی بے بے جی بتایا کرتی تھیں کہ چچا جان کو مُجھ سے محبت خاص تھی۔ بھائی صاحب اور میں جُڑواں ہیں۔ چچا جان مُجھے پاؤں سے پکڑ کر اُلٹا لٹکا کر محبت کا اظہار کیا کرتے تھے۔ مائی جی کے بقول اُن کو ایسا کرتے دیکھ کر اُن کا دِل دہل جایا کرتا۔ چچا کے ہاں میں نے اپنی کچھ تصاویر دیکھ رکھی ہیں، خلعت اور ختنوں کے عُذر سے پاک گول مٹول سا بچہ جس کی ناف اُبھری اُبھری سی تھی۔ محبت کے اظہار کے پیرائے ہر ذی روح کے اپنے ہیں اور خالق کے اسرار وہی جانے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ مُجھ پہ لگا پسیتا، روپیہ یا ڈالر اُنہوں نے واپس نہ مانگا۔ چوری چھپے بھی پیسے پکڑا دیتے تھے اور مُجھے بھی انکار وغیرہ کرنے کی کوئی ایسی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔
کاروباری پکے تھے اور ایسے پکے کہ سیمنٹ، اینٹوں اور لوہے کا کاروبار تھا۔ پاکستان سے اونیکس (سنگِ مر مر کی ایک قِسم) منگوا کر اپنے ہسپانوی دوست احباب کو ہدیۃً پیش کیا کرتے اور بیچا بھی کرتے۔ میرے بار بار پوچھنے پر بار بار یہی جواب دیتے کہ “بیٹا ایسا کرنا ضروری ہے”۔مسلکاً ڈیڑھ ہسپانوی تھے۔ ایک اِس لیے کہ معاشرتی انضمام کے سخت قائل اور آدھا اِس لیے کہ برتری بھی کسی چڑیا کا نام ہے۔
ڈیڑھ ہسپانوی بننا میں نے اُن سے سُنا یا بیس بائیس سال بعد جب جناب چوہدری امانت وڑائچ سے مُلاقات ہوئی۔ آپ پہلے پاکستانی ہیں جن کی باقاعدہ پالسن گروپ آف انڈسریز کے نام سے ایک دُنیا آباد ہے۔ چوہدری امانت، چچا جان اور انکل رشید بٹ صاحب پرانے واقفانِ حال ہے مگر مُجھ پر اُتنا ہی افشا کرتے جتنی ضرورت ہوا کرتی۔
چچا جان رشید بٹ صاحب کو بارسلونا اور وہ بارسلونا کو خوب جانتے ہیں۔ آپ، چوہدری امانت علی وڑائچ اور چچا راجہ عارف اکھٹے ہسپانیہ پدھارے تھے۔ اُن کے برخوردار علی رشید بٹ سے میری یاد اللہ ہے مگر اِس خاندان کی روداد اپنے وقت پر بالترتیبِ زمانی بیان کی جائے گی۔
افضال احمد بیدار صاحب بھی یہیں نکاح یافتہ ہیں اور دونوں بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پہ ہیں۔ آپ باذوق، علم و ادب کے دلدادہ شخصیت ہیں۔ بارسلونا میں اہل ادب یا با ادب جن کی عُمر پچاس پچپن سال سے زائد ہے اُن میں ایک ہیں۔ معروف صاحبِ کتاب، شاعر اور اپنی نثر میں یکتا جناب محمد اظہار الحق کے دوست ہیں اور پاکستان میں ان کا خاندان اعلی ادبی، علمی، تعلیمی، غور و فکر کرنے والا، تدبر برتنے والا اور مُدبر قسم کا خاندان ہے۔
جو جہاں سے اُٹھ گئے اُن میں راجہ اقبال خان، حق مرحوم و مغفور کرے سر فہرست ہیں۔ راجہ صاحب بارسلونا کی معروف شخصیّت، پہلے باقاعدہ وکیل عزیزم راجہ نامدار اقبال خان کے والد بزرگوار تھے۔ اقبال پہ اُنہیں تصرف عطا کیا گیا تھا۔ آزاد کشمیر کے شعرا نے اُنہیں اپنی نظموں کا عنوان بنایا ہے۔
راجہ شفیق کیانی، خدا اُن کی حیات میں برکت دے اور ہر ہر کو اُن جیسی “پوسٹ ریٹائرمنٹ” زندگی عطا کرے کہ پینسٹھ سال سے زائد عُمر ہے اور بارسلونا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں اپنی پھٹ پھٹی ( موٹر سائیکل) پر دامے درمے سُخنے موجود ہوتے ہیں۔ میرے لیے شروع دِن سے ایک معمہ حل طلب ہے کہ موٹر سائیکل پر وہ ہر جگہ صاف ستھری پتلون سمیت پہنچ کیسے جاتے ہیں کہ دامن کو چھوڑیے، پائنچوں پر داغ نہیں اور استری بھی باقاعدہ ہوتی ہے، بلاشُبہ موٹر سائیکل چلانے کے بعد سِلوٹوں سے پاک پتلُون فن ہے۔ راجہ صاحب کمیونٹی کے لیے کُچھ بھی نہ کریں تب بھی اُن کے لیے پاکسلونا ریڈیو کے چند سال کافی ہیں کہ ریڈیو پاک سلونا کی نشریات ہر اردو بولنے والے صاحبِ کار، بس اور ٹرک والے کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ تھیں۔
جاوید صاحب اور اسلم بیگ صاحبان فنونِ لطیفہ کی باریکیوں یعنی موسیقی کی نزاکتوں سے نبرد آزما رہے۔ آج بھی اوسپیتال گلی نمبر 39 بارسلونا مرکز میں اُن کے زیرِ استعمال موسیقی کے آلات موجود ہیں۔ بہادر حسین صابر، عارف علی عارف اور خالد اظہر (ہندوستان سے تھے) ادب کی آبیاری کیا کرتے۔
امیگریشن کا جو نیا طوفان آیا اُس میں بھی جناب طاہر اعظم جیسے جوہر کمیاب چُھپے تھے۔ آپ بارسلونا میں شیکسپئر، اور غالب کے اکلوتے وارث ہیں۔ خاندانی طور پر علم و فضل، تعلیم اور تعلم نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ پنجابی اردو اور انگریزی شعر و نثر کا چلتا پھرتا حوالہ ہیں۔ خود پنجابی میں بڑے شعر کہتے ہیں۔ برجستگی اور سادگی کا مُرقع ہیں۔ آلِ رسول علیہم السلام سے نسبت سچی اور سُچی ہے ۔
بارسلونا کے معروف ماہرِ سماجیات جناب طاہر رفیع اُنہی امیگریشن یافتاؤں میں سے ایک ہیں اور اُن کی خدمات ایسی ناقابلِ یقین ہیں کہ چند سطور کجا ایک مضمون میں احاطہ ناممکن ہے۔
اِن اصحاب سمیت پاکستانی کمیونٹی کے ہر اُس شخص کا کا ذکرِ خیر شخصیات کے باب میں مُفصل موجود ہے جِس نے پاکستانیوں کو روزگار، ادب اور علم و فن سے روشناس کروایا۔ یہاں چند مثالوں کے ذریعے صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ شوہدے، ندیدے، بدِید، ٹیکلے، چِہرے، ٹٹیرے، ٹچ اور ٹیوے لگانے والے، ڈنگ ٹپاؤ حواس باختہ، خود ساختہ ٹوکوں اور ٹھوکوں کی موجودگی میں روزگار، فن، علم و ادب کا سفر کرنا، یہ شمع فروزاں رکھنا، اس چراغ کی لو کو خونِ جگر سے جلائے رکھنا بہت بڑا کام ہے اور یہ دلیل غلط ہے کہ پاکستانیوں کی ترقی ۲۰۰۰ء کے بعد شروع ہوئی۔ ۱۹۹۸ء سے قبل بھی یہاں مشاعرے ہو چُکے ہیں، شعرا، ادبا تشریف لا چُکے ہیں، موسیقی کی محافل جمائی جاتی رہی ہیں، یاروں کے اللے تللے اور رشتہ داروں کی دُرفطنیاں ماحول کو گرماتی رہی ہیں۔ میدان تیار تھا، مٹی گوندھی جا چُکی تھی اور دانا بویا جا چُکا تھا، کچھ کی فصلیں پک چُکی تھیں اور اُنھوں نے دوسروں کے لیے کافی ساری زمین ہموار اور تیار کر دی، آب و ہوا کا بندوبست ہو چُکا تھا، سمت متعین تھی جس پر نئے آنے والوں کو محنت اور ریاضت کرنی تھی۔
جوار بھاٹا: بحوالہ اُردو لُغت: تاریخی اُصول پر
۱۔ سمندر کے پانی کا چٖڑھاؤ اور اتار جو چانٗد کی کشتی سے ہوتا ہے ، مد و جزر ۔
۲۔ پانی کی لہر جو جوار بھاٹے کی وجہ سے پیدا ہو۔
کاہش: بحوالہ اُردو لُغت: تاریخی اُصول پر
۱. تخفیف ، کمی ، نقصان ، گھس جانا ، ضیاع.
۲. لاغری ، دُبلاہٹ ، کمزوری ، ضُعف.
۳.
(i) (مجازاً) تکلیف ، ایذا (جس میں جسم گُھلنے لگے).
(ii) مشقّت ، جان کَھپانا
Comments are closed.