بارسلونا میں ایک تارکِ وطن کی اولین دنوں کی روداد

ہسپانیہ نامہ ڈاکٹر عرفان مجید راجہ دشتِ گُماں اور حرکتِ روز و شب (ا)

جو وطن تیاگ دیتے ہیں اُن کی مثال اُس جوگی کی ہے جو جینا چھوڑ کر زندگی چاہتا ہے اور اِسی خواہش کی تکمیل میں مانوس گلی محلہ، کھڑکیاں، چوبارے، تھڑے اور نُکڑ جہاں کھڑے ہو کر کم و بیش ہر “شریف النفس” مرد و زن سے اُس نے اول فول اور “بڑے بوڑھوں” سے عام حالات میں گالیاں اور خاص حالات میں پھکڑ سُنے ہوتے ہی۔ سب کُچھ پیچھے چھوڑ کر وہ ایسے علاقوں کا رُخ کرتا ہے جنھیں وہ جنگل مان کر وہاں منگل اور دنگل کا انتظام کر کے اپنے اُس علمی محاورے “جنگل میں منگل” کی تکمیل کرتا ہے جو اُس نے بچپن میں کہیں سُن یا پڑھ رکھا ہوتا ہے۔ خود مراقبوں سے عاری، طویل اور تھکا دینے والی محنت اس لیے کرتا ہے کہ سوائے اپنے ہر متعلقہ ذی ہوش کی تسکین کے در وا کر سکے اور ایسا کرتے وہ اپنے ہوش گنوا کر گیان حاصل کرتا ہے۔

نئی جگہ پر ابتدائی ایام کم و بیش سبھی کے لیے زنانہ قسم کے ہوتے ہیں۔ ابتدائی ایّامِ حمل جیسے، جہاں واہمے ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں کیا ہونے جا رہا ہے اور ہو وہی رہا ہوتا ہے جس کے لیے کاوش کی۔ خدا سے خیر مانگی جاتی ہے، یار دوست تسلی بھی ویسی ہی دیتے ہیں جیسے حاملہ خاتون کو دی جاتی ہے یعنی “کوئی فکر نہ کرو”، “اللہ سے خیر مانگو”، “تھوڑی تکلیف ہے پھر عادت ہو جائے گی” وغیرہ وغیرہ۔ طبیعت بھی ویسی ہی ہوتی جاتی ہے۔ کُچھ کھانے کو جی نہیں کرتا، کبھی متلی رہتی ہے تو کبھی یکا یک بُھوک بڑھ جاتی ہے۔ کسی کروٹ نیند نہیں آتی اور آتی ہے تو فرش، صوفے اور گدے میں تمیز نہیں کرتی۔ ایسے میں روز نیا مُستقبل بُنتا غریب الوطن جو کھٹا میٹھا تازہ باسی مِل جاتا ہے کھا لیتا ہے۔

اِس حالتِ زنانہ میں چھڑا ہونا مظاہرِ قُدرت میں سے ایک مظہر ہے۔ مظہر، سب کا لالا، جس کا کام آٹا گُوندھنا، سگریٹ پھونکنا اور ہر چھوٹے بڑے کی باتیں سُن کر ہنس دینا صرف اِس ہوتا ہے کہ اُسے تب تک لالا بن کے رہنا ہوتا ہے جب تک اُس کے پکے کاغذات نہیں بن جاتے۔ میں جس اپارٹمنٹ میں آ کر رہتا تھا وہاں ایسے دو لالے تھے۔ مَیں؁۱۹۹۸سے بارسلونا آمد کے بعد ہمیشہ کائیے (۴)الباریدا، ہوسپتالیت دے یوبریگات میں اپنے بھائیوں، پھپھیروں، والد کے مساتوں اور بھائی کے دوستوں کے ساتھ رہا کرتا۔

یہ سات کمرے کا اپارٹمنٹ تھا۔ دو غسل خانے تھے جن کے باہر قطار اس لیے نہ لگتی کہ مکینوں کے کام کے اوقات مختلف تھے اور کبھی لگ بھی جاتی۔ گھر گھر کی کہانی تھی کہ بارسلونا کے اکثر فلیٹ تین کمرے، ایک غسل خانہ، ایک باورچی خانہ اور ایک بیٹھک کے اور اکثر آخری منزل جسے آتیکو کہتے ہیں وہاں ہوا کرتے اور ایسی ہر عمارت میں لفٹ ندارد ہوتی جب کہ آتِیکو شروع ہی چوتھی منزل سے ہوتا۔ اور منزل بہ منزل پانچویں تک جا پہنچتا۔ خدا جانے اِس میں کیا حکمت تھی کہ چھ منازل والی عمارتوں میں لفٹ نکل آیا کرتی۔ منازل کی بانٹ بھی عجیب لگا کرتی یا شاید عجیب ہی تھی۔ گراؤنڈ فلور وہاں ملتا جہاں عام طور پر پہلا فلور ہوتا ہے۔ وجہ گراؤنڈ فلو پر بنی کوئی دُکانوں کی قطار وغیرہ نکلتی۔ دُکانیں نہ ہوتیں تو نچلی منزل، پھر اینتیرو سواےلو(۴) پھر پہلی منزل آتی۔ میری رائے میں جتنے لوگوں کو نچلے پیٹ کا درد اور پچاس سال سے پہلے پراسٹیٹ غدود یا پیشاب قطرہ قطرہ نکلنے جیسے مسائل ہیں یہ اُنہی دِنوں کا اعجاز ہیں جب غُسل خانہ ایک ہوا کرتا تھا۔ بندہ صبح سویرے جاگ کر یا چار منازل سیڑھیاں چڑھ کر تیسری منزل پہ پہنچ کر دیکھتا تھا کہ گیارہ بندے قطار میں لگے “جلدی کر اوئے”، “ہن نکل وی آ”، کے آوازے کستے اپنے اپنے پیٹ اور جُملہ آلات ہاتھ میں پکڑے لوٹ پوٹ رہے ہوتے۔ اِن حالات کا مُقابلہ اکثر جواں مردوں نے ویک اینڈ پر تاخیر سے جاگ جاگ کر کیا۔

ہر فلیٹ پر موجود لالا کی طرح کا ایک مظہر عام دنوں میں پرات بھر کے اور ہفتہ اتوار ٹب بھر کر آٹا گوندھا کرتا۔ عمران بھائی مچھلی اَوَن میں بنایا کرتے اور پھوپھو زاد محمد غوث، چچا غلام ربانی اور چچا مطلوب الرحمان جب جب دیگ سے اڑہائی تین سینٹی میٹر چھوٹا دیگچہ بھر کر ہنڈیا بنایا کرتے، تب تب ہمارے ایک سینئر بزرگ ہنڈیا کے پاس سے گُزر کر اُس کو ذائقہ دار بنایا کرتے۔ خود فرماتے تھے کہ وہ پاس سے گُزرتے ہیں تو ہنڈیا میں ذائقہ در آتا ہے۔ چائے تو خیر راجہ زُبیر (حق مغفرت کرے) بنایا کرتا اور آج تک ویسی چائے پی نہیں۔

حالتِ زنانہ کے بارے میں مَیں عرض کر رہا تھاکہ ہر غریب الوطن اس حالت سے گُزر کر مرد بنتا ہے۔ وہ مرد جس کے بارے میں لفظ کُندن استعمال ہوا ہے اور مائیں جسے تعلیم دیتی ہیں کہ مرد اور گھوڑے کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔میرے ساتھ ایسا یا اِس سے ملتا جُلتا کُچھ بھی ہسپانیہ میں پیش نہیں آیا۔ خاندان کا بڑا حصہ یہاں تھا سو اتنا ہی فرق پڑا جتنا دیوار اور دروازہ بدلنے پر خاندانی شادیوں میں پڑتاہے۔ میں اِن اولین ایّامِ حمل سے ۱۹۹۵ء میں گُزر چُکا تھا۔ ایک طالب علم کے لیے یہ ایّام اور کٹھن ہوتے ہیں کہ وہ کمانے کے لیے نہیں بل کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے وطن چھوڑتا ہے یا اُس سے چُھڑوایا جاتا ہے۔ ہسپانیہ میں وُرُود سے قبل مَیں “گھر گرہستی”، طلبا کی سیاست، ٹچ ٹانکا اور ڈنڈا سوٹا سیکھ چُکا تھا کہ گھر، گھاٹ اور جامعات کے درمیان گورے چٹے،گندمی اور سیاہ فام طلبا، طالبات اور اُن کے ایسے ہی مطالبات، اُن کی مجبوریوں اور ضروریات، اُن کے امتحانات اور جملہ مغلظات اور خُرافات کو سُنتے، دیکھتے اور حل کرتے بطور صدر انٹرنیشنل سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن فیکلٹی آف میڈیسن جامعہ اورادیا کامل چار سال گُزار چُکا تھا۔ شعر و نثر کا چسکا اُس عُمر سے تھا جب میرے ارد گرد بچے زیادہ سے زیادہ ٹھینگیاں کی ہٹی (۶)سے مرُنڈا وغیرہ لے کر پہا بھولا اور شب برات پر پٹاس پٹاخے چھڑا کر طُرم خان بنے پھرتے تھے۔ کتاب میرے ہاتھ میں بہت بچپن سے ہے سو طلبِ علم نے، غریب الوطنی اور اُس میں عملی طلبہ سیاست اور کتابوں نے مُجھے بجائے بہو کے ساس کی سطح تک پہنچا دیا تھا۔ پے درپے محبتیں اور اُن سے ڈیڑھ پونے دو اُوپر نفرتیں، مقابلے، کُچھ معاشقے، کُچھ سوتنیں اور کافی ساری خواہشیں مار کر میرے یاران اور خواص ڈاکٹر عامر شہزاد بسوی اور ڈاکٹر شہزاد اسلم کے مطابق جب ہِیرا (وہ آج بھی یہی سمجھتے ہیں) بن چُکا تب مَیں مستقل آباد ہونے کے واسطے ہسپانیہ آیا تھا۔

بارسلونا میرے لیے سمندر کنارے دُنیا کے بہترین شہروں میں سے ایک کبھی نہیں رہا بل کہ بارسلونا،لاہور اور لندن میں میرے لیے یکساں رومانس بھرا ہے۔ یہ سچ ہے کہ میں نے صرف بارسلونا کو گزشتہ چوبیس سال سے دشتِ گُماں سمجھا اور لکھا ہے۔

؂

جب بھی لکھا کمال لکھا

پھر اُس کو بے مثال لکھا

ستمبر ۲۰۰۷ مُجھ پر جب اپنی اسناد کیسے اور کہاں جمع کروانی ہیں واضح ہو گیا تو پہلا مرحلہ درخواست مکمل کرنے کا تھا۔ اُن وقتوں میں ہسپانوی زبان کی سند جمع کروانا ضروری نہیں تھا مگر میں نے دراسانیس کے حکومتی سکول برائے لسانی تعلیم (EOIBD) (۷) میں داخلہ لے لیا تھا۔ امتحان کی تیاری میری وہی تھی جو گزشتہ چند ہفتوں میں مَیں نے ہسپانوی زبان بادالونا کے گلی کُوچوں، بازاروں، دُکانوں میں خرید و فروخت کرتے لوگوں، خواتین و حضرات کو پیار اور لڑائی کرتے دیکھتے، چھوکرا چھوکریوں سے گلی کُوچے کے گندے الفاظ اور گالیاں، بڑی بوڑھیوں کے ساتھ بنچوں پر بیٹھ کر اور لکھ لکھ کر سیکھی تھی۔ شاید اُسی کا اعجاز تھا کہ مُجھے بجائے بُنیادی یا پہلے درجے کے دوسرے درجے میں داخلہ مل گیا۔ سکول میں مَیں نے زبان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو دھوبی رپٹا لگاتے اُس کپڑے کے ساتھ کرتا ہے جو دُکاندار اپنی طرف سے ترپال کا کپڑا کہہ کر بیچتا ہے اور جب آپ پہلی دُھلائی کے بعد دھوبی سے وصول کرتے ہیں تو آپ کو کپڑا جا بجا اُدھڑا ہوا ملتا ہے اور سلائی نئی کروانے والی ہو چُکی ہوتی ہے۔ ہسپانوی زبان کو شاید میرا جٹکا طرز کُچھ ایسا پسند آیا کہ وہ دن ہیں اور آج کے دِن مِثلِ بُو گُل سے لِپٹی ہے۔

درخواست کے ساتھ زبان کی سند کی بجائے فِیس کی رسید لگانا لازمی تھا۔ میرے چھوٹے بھائی راجہ رِضوان مجید مُجھے بارہا بنک لے کر گئے کہ “کارڈ مارنا” سیکھ لے۔ فیس جمع کروانے کے لیے وہ اپنا کارڈ مُجھے دے گئے۔ میں نے حفظِ ماتقدم کے تحت بجائے مشین کے بنک کی ایک خاتون سے مدد مانگ کر فیس جمع کروا لی تھی۔ باہر نکلتے مُجھے شوق ہوا کہ کارڈ مار کر دیکھا جائے سو میں نے کارڈ ایسا مارا کہ مشین میں پھنسا کر دم لیا۔ خدا ایسا لا اُبالی پن کسی کو نہ دے،جیب میں پیسے نہیں تھے، اپارٹمنٹ کی چابی اندر ہی رہ گئی تھی، اور میں رستہ پوچھتے، ہانپتے اور باقاعدہ کانپتے کوئی اڑھائی گھنٹے میں وزارتِ سائنس کے دفتر پہنچا۔ اُنہوں نے مُجھے مجذوب سمجھ کر پانی پینے کو دیا، پھر پانچوِیں منزل پر جانے کا کہا جہاں مجھے دوبارہ پانی پینے کو ملا اور ہاتھوں ہاتھ میری اسناد جمع کر کے وصولی کی رسید میرے ہاتھ میں تھما دی گئی۔

وزارتِ سائنس کا دفتر براگارا گلی میں تھا اور آج بھی ہے۔ میں وہاں سے نکل کر پلاژہ کاتالونیا (Plaça Catalunya) میں ایل کورتے انگلیس کے سامنے لگے بنچوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ کافی، میٹرو کا ٹکٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے، پانی دو گلاس میں پی چُکا تھا۔ قلم نکالا، فائل سے کاغذ نکالا اور پلاژہ کاتالونیہ میں جا بجا اُڑتے کبوتروں، لب بلب بوسہ لینے والے نوجوانوں، اُدھیڑ عُمر خواتین اور ہاتھ میں ہاتھ ڈالے جوڑوں اور چھڑی کے سہارے چلتے بُزرگوں پر نظم لکھی۔

؂

پلاژہ کاتالونیہ کی ایک خنک دوپہر

ایک سا ہے اِس شہر کا مزاج

ایک ہے سزا جزا کا رواج

جا بے جا اُڑتے پِھر رہے ہیں کبوتر

ذوقِ پرواز بس شوقِ دانہ و آب

سنگِ سفید کی تہ در تہ منازل

Activity - Insert animated GIF to HTML

اُن پر اُڑتے بادل

رُت جو بھی ہو ایک سا ہے عذاب

دُھوپ سینکتے بوڑھے

جواں سال جوڑے

ہاتھ پکڑے

کمر تھامے

کہیں تنہا لوگ

ایک سا ہے سب کا خواب

اور سب کا خانہ خراب ایک سا ہے

ڈھلتے سائے ہوں یا ہو عمرِ رواں کا منظر

مرض الگ الگ سہی

مگر ایک سا ہے سب کا علاج

یہاں سارے سوال ایک سے ہیں

اور ایک سے ہیں سب سوالوں کے جواب

ہیں روز و شب میں یادِ وصالِ یار لیے

رُت ہِجر کی کاٹتے سوزِ وبالِ بہار لیے

بھائی صاحب کے قریب ترین دوستوں میں ایک نصراللہ بھائی ہیں ۔ اُن کے بڑے بھائی ہیں غلام عباس۔ وہ پلاژہ (۸) کاتالونیہ آ نکلے۔ عباس بھائی نے مجھے ڈاکٹر صاحب کہہ کر آواز دی، گاڑی میں بٹھایا اور ہم اُن کے اپارٹمنٹ پر چلے گئے جہاں ہم نے اکھٹے کھانا کھایا اور چائے پی اور پھر میں نے عباس بھائی کو صبح سے سہ پہر تک کی کارگُزاری سُنائی اور سرِ شان گھر پہنچ کر چھوٹے بھائی سے خوب داد پائی۔ یہ سچ ہے کہ میں جب ہسپانیہ آیا تو مجھے بنک کارڈ کا استعمال نہیں آتا تھا۔

(۴) کائیے (Calle) ہسپانوی زبان میں گلی کو کہتے ہیں۔

‏(۵) Sótano تہہ خانہ یا انگریزی میں بیس منٹ اور Entresuelo نچلی منزل اور پہلی منزل کے درمیان منزل کو کہتے ہیں۔

(۶) ہمارے گاؤں پُران میں ہمارے بچپن میں چچا جان راجہ محمد نواز اور راجہ محمد اکرام برادران، خدائے واحد خُلد نشین فرمائے، کی دُکان تھی جس میں سب کُچھ ویسے ہی ملتا تھا جیسے عُمر عیّار کو زنبیل سے۔ چچا یا چاچا ہم جہاں استعمال کرتے ہیں وہ اصل کی بجائے بزرگوں کے معنی میں ہے اِلّا کہ صاف صاف بطور رشتہ لکھ دیا جائے۔

‏(۷) Escola Oficial de Idiomas Barcelona Drassanes۔ کاتالونیا میں لسانیات کا معتبر ترین ادارہ ہے۔ یہاں ۲۰۱۸ سے اردو بطور مضمون اختیار کی گئی اور ہمارے حافظ احمد اس اسکول میں معلم ہیں۔ حافط صاحب جرمن خبر رساں ادارے DW کے ساتھ بطور صحافی منسلک ہیں اور مکمل تذکرہ شخصیات کے ابواب میں آئے گا۔

‏(۸) Plaza/ Plaça Catalunya: بارسلونا شہر کے دو بڑے اور تاریخی سکوائر ہیں، پلاژہ کاتالونیا اور پلاژہ ہسپانیا۔ پلاسا کاتالونیہ سارا سال سیاحوں سے بھرا رہتا ہے۔۔ بارسلونا کا مرکز ہے، جامعہ بارسلونا اس کے ایک بازو پر ہے، وزارتوں کے دفاتر ، معروف شاپنگ مال El corte Ingles اور مرکزی ہسپانوی بنک کی عمارت بھی یہیں ہے جب کہ دوسرے بازو پر رمبلہ کاتالونیہ ہے جو ساحلِ سمندر پر جا نکلتا ہے۔

Comments are closed.