خواتین برابری کی خواہش اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آخر کار سڑکوں پر ہی نکل آئیں۔ آخر یہ جدوجہد جنونی کیفیت کیوں اختیار کر گئی؟ اگرچہ برابری کی یہ دوڑ کوئی نئی بات نہیں اور خواتین یہ تگ و دو ہمیشہ سے ہی کرتی آ رہی ہیں۔ مگر اب مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کی دھن خواتین پر سوار ہوئی نظر آ رہی ہے۔ شاید ہماری خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ سڑکوں پر نکلے بغیر اُنہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے۔
ہمارے معاشرے میں حوا کی تمام بیٹیوں کو ابن آدم کی پسلی کی ہڈی ہونے کا طعنہ دیا گیا، ٹیڑھا اور کم عقل گردانا گیا، مرد کو معاش کمانے کی وجہ سے عورت کے مقابلے میں زیادہ تمام مراعات دی گئیں، بات یہیں ختم نہیں ہوتی معاشرے میں ہر سطح پر عورت کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اس کی صلاحیتیں مرد کے مقابلے میں کم تر ہیں۔ مرد بہادر ہے، کماتا ہے، قوت فیصلہ رکھتا ہے، دانشور ہے اور دنیا اس کے سر پر چل رہی ہے۔
اگر یہ تمام صفات اور خوبیاں مردوں میں موجود ہیں بھی تو اس کے باوجود عورت کی خوبیوں اور صفات کو کمتر و حقیر سمجھتا اور مختلف مواقع پر انہیں نظرانداز کردینا بھی زیادتی ہے۔ بچے کو جنم دے کر اپنے شوہر کی نسل کو آگے بڑھانا، ان کی تربیت و پرورش معمولی کام نہیں، عورت ایک ماں کی شکل میں انسان کی ذہنی و جسمانی نشوونما کر رہی ہوتی ہے۔ ایک ننھے سے بچے کی تمام حساسیت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی ذات کو فراموش کر کے اس کی ضروریات پوری کرتی اور اسے پروان چڑھاتی ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک عورت کی بے لوث محنت اور محبت کو سراہنے کی بجائے اس کے احساسات اور جذبات کو کم عقلی اور کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور خاندان میں اس کے اہم کردار کو تسلیم کرنے کی بجائے جزوی یا کلی طور پر نظر اندار کر دیا جاتا ہے۔ یہ بات واضح کرتی چلوں کہ یہاں اُن گنے چنے گھرانوں جہاں پر خواتین کا جائز مقام تسلیم کیا جاتا اور ان کے کردار کو سراہا جاتا ہے کی بجائے بحیثیت مجموعی معاشرے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے جس معاشرے میں لڑکیوں، عورتوں اور خواتین کو ان کا جائز مقام نہیں ملتا وہاں پر کوئی نہ کوئی، کبھی نہ کبھی اپنے حق کیلئے صدا بلند کرتی ہیں جس کے جواب میں ان کی ہم عصر لبیک کہتے ہوئے معاشرے میں اپنے حق اور جائز مقام کیلئے جدوجہد کرتی ہیں تا کہ انہیں بھی عزت و تکریم مل سکے اور وہ بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے خود مختار فرد کی سی زندگی گزار سکیں۔
خواتین نے اپنے زور بازو پر یقین رکھتے ہوئے تعلیم، صحت کے شعبوں میں مختلف عہدوں پر مردوں کے شانہ بشانہ کام کر کے خود منوایا لیکن نرس، استانی اور ڈاکٹر بننے کے باوجود خواتین کا یہ احساس ختم نہیں ہوا کہ مردوں کے مقابلے میں ان کی صلاحیتوں کو دبایا جا رہا ہے، اس لئے انہوں نے بری، بحری و فضائی افواج کے مختلف شعبوں میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑھنے کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ، وکالت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور میڈیا انڈسٹری میں بھی اپنا لوہا منوایا۔
اگر صرف میڈیا ہی کے شعبے کو لے لیں خواتین نے نیوز روم اور سٹوڈیو سے نکل کر فیلڈ رپورٹنگ کی اس کے بعد کرین پر چڑھ کر ہزاروں، لاکھوں کے مجمعے کی کوریج کرتی نظر آئیں، کیمرہ ورک میں بھی مہارت حاصل کر کے اس شعبے میں بھی مرد کے ساتھ بھرپور مقابلہ کرنے مرد کی برابری کرنے کی کوشش میں جت گئیں۔۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد، مختلف شعبوں میں ترقی و کامیابی اور مرد کی برابری کا جنون کہیں احساس کمتری کا نتیجہ تو نہیں؟؟
یہاں یہ بات بھی فکر طلب ہے کہ آخر عورت کو اپنی ذات کا موازنہ مرد سے ہی کیوں کرنا ہے؟ مسئلہ یہ نہیں کی عورت کا آگے بڑھنا غلط ہے بلکہ مسئلہ اس سوچ کا ہے کہ مرد کے برابر آنا ہے اور خود کو منوانے کیلئے اُس سے آگے نکلناہے۔ عورت خود کو مرد سے یا اس کی قدرتی صلاحیتوں سے کم تر سمجھ کر اس کی برابری نہیں بلکہ مرد سے مقابلہ چاہ رہی ہے۔ جو کہ میرے نزدیک قدرت خداوندی کی ناشکری ہی نہیں بلکہ نافرمانی بھی ہے۔ مردوں کے کام کرنے سے قدر و اہمیت میں اضافے کی سوچ غلط ہے۔
مگر اس نفسیات کے پنپنے میں صرف عورت قصور وار نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے جس کو ہم سب نے مل کے تشکیل دیا ہے۔ جس میں معیار مرد کو بتایا یا بنایا جاتا رہا ہے۔ جہاں بھی بیٹے نہیں ہوتے وہاں لڑکیاں اپنے والدین کو یہی تسلی دیتی ہیں کہ میں بیٹا بن کے دکھاوں گی یا میں آپ کا بیٹا بنوں گی، جب کہ کبھی بھی کسی بیٹے سے بیٹی بننے کی فرمائش یا خواہش نہیں کی جاتی، کیوں کہ بیٹوں یا مردوں کو پیدائشی خاص ہونے کا لیبل دیا جاتا رہا ہے۔
لیکن عورت اور مرد دونوں خدا کی ہی تخلیق ہیں جن کی پیدائش اور پرورش میں خدا نے کسی قسم کا فرق نہیں رکھا۔ خدا کو اگرصرف مردمی خصوصیات ہی پسند یا درکار ہوتیں تو وہ آدم کو بنانے کے بعد حوا کی تخلیق کا ارادہ قطعاْ نہ کرتا اور نہ ہی آدم کی خصوصیات کے برعکس ایک صنف نازک کی تخلیق کرتا اور تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ یا قول بھی سامنے نہیں آتا کہ خدا نے حوا کی تخلیق کے بعد آدم کو کہا ہو کہ یہ میں نے تم سے کم تر ایک چیز بنائی ہے تو تم اسے ہر وقت یہ باور لازمی کرواتے رہنا کہ یہ تمہاری پسلی سے پیدا ہوئی تھی۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے یہی کہا تھا کہ تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھی ہو۔ اگر آدم اکیلے رہ سکتے تو اللہ تعالیٰ اُن کو اکیلا ہی بنا دیتا پوری دنیا کے لیے مگر اُن دونوں کی تخلیق اور جوڑا تمام نسل انسانی کے لیے مثال ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہی کائنات کی بقاء کے لیے ضروری ہیں، کوئی بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔
لہذا عورت کو اپنے عورت ہونے پر اور خود کی نسوانی خصوصیات پر اعتماد اور مطمئن ہونا چاہیئے۔ عورت ایک ماں، ایک بیوی، ایک بہن ہے، اگر وہ معیشت میں اپنا کردار نہ بھی ادا کرے تو اُس کی ایک بڑی ذمہ داری قوم کی تربیت ہے، وہ معمارِ قوم ہے۔ اُس کی نسوانی صلاحیتوں کو نظرانداز اور کم تر جاننے کے نتیجے میں مردوں اور عورتوں دونوں میں ہم نے مردانہ صفات ہی پیدا کر دی ہیں۔ اور معاشرے کا حسن ختم کر دیا ہے۔
اب عورت اور مرد ایک انداز میں سوچتے اور مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ بحیثیت معاشرہ ہم عورت کی نسوانی صفات کی نگہداشت میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ عورت کا معاش میں میں کردار ادا کرنا اگر اتنا ہی اہم اور سودمند ہے تو تمام تر کوششوں کے باوجود اسے کوئی نمایاں کامیابی نظر نہیں آرہی۔ بلکہ کہنے کو ایک خود مختار اور برسر روزگار عورت کو ازدواجی زندگی میں شدید مسائل درپیش ہیں۔
ان عوامل اور ان کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کو اسی کی فطری صفات میں سنوارا اور نکھارا جائے، اس کی تربیت میں یہ بات شامل کی جائے کہ تمہیں عورت ہونے پر ناز ہونا چاہیئے اور اپنی فطری صفات اور اقدار کو اپنائے۔ لڑکیوں کی تربیت میں یہ چیز شامل کی جائے کہ وہ خود کو اندر سے آنے والی آواز پر پرکھ کر جانیں کہ وہ خدا کی ایک تخلیق ہیں جس کا مقصد مردوں کی عادات و خصوصیات اپنانا نہیں بلکہ اپنی منفرد خصوصیات سے ایک گھر اور معاشرے کو سنوارنا ہے۔
اپنے ارد گرد اور ماضی قریب کا مشاہدہ کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی تعلیم و تربیت پر ہی زور دیا جاتا رہا ہے اور لڑکوں کو ان کی جنس کی وجہ سے آزادی اور چھوٹ دے دی جاتی ہے کہ لڑکا ہے جو بھی کرے خیر ہے، لہٰذا مردوں کو یہ بھی سمجھایا اور بتایا جائے کہ تمہاری صنف تمہاری اہمیت کا تعین نہیں کرے گی، اچھے کام پر عزت اور اہمیت ملے گی اور برے کام پر ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اگر عورت اپنے حقوق کی جنگ جیتنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ اپنے بیٹے کو بیٹی پر فوقیت نہ دے، بیٹے کی تربیت کے دوران عورت کے کردار کو پرکھنے کیلئے ظاہری اور کھوکھلے معیارات نہ مقرر کرے جیسا کہ “جینز پہننے، رات کو گھر سے باہر نکلنے والی لڑکیاں اچھی نہیں ہوتیں”۔ان کھوکھلے معیارات سے لڑکوں کے ذہن ایسے بنتے ہیں کہ اگر جینز پہنے والی لڑکی پر کو بازار میں چھیڑ لو یا مغرب کے بعد باہر نکلنے والی لڑکی سے زیادتی کر تو برا نہیں اور معاشرہ اس لڑکی کو ہی خراب سمجھے گا۔
عورت کو معاشرے میں جائز مقام دلانے کیلئے سب سے بڑی ذمہ داری ماں کی ہے جو اپنے اولاد بالخصوص بیٹوں کو خواتین کی عزت کرنا سکھائے اور ان کی مثالی تربیت کرے، خواتین کے پاس سب سے بڑا اور موثر ہتھیار مامتا ہے جسے مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہیں بلکہ معاشرے اور قوم کی تعمیر و ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔
ثناء شبیر ینگ جرنلسٹ ہیں جو راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا تجربہ رکھتی ہیں اور آج کل نیوز ڈپلومیسی سے وابستہ ہیں۔
Comments are closed.