تنویر الیاس اِن،بیرسٹرسلطان آوٹ؟مقاصدکیاہیں؟

تحریر: راجاخرم زاہد

آزادکشمیر کی سیاست نظریات سے زیادہ شخصیت پرستی، برادری ازم اور طاقتور یا مرکزی حکومت کے ساتھ تعلقات کے گرد گھومتی ہے۔ نظریات برادری اور شخصیت تک محدود ہوتے ہیں اور یہی ماضی کے انتخابات میں ہوتا آیا ہے۔ جس کی ہوا چلی وہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔

 آپ موجودہ قیادت کو دیکھ لیں سواد اعظم جماعت کے نام سے مشہور آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی بنا پر حکومت کی، کبھی نوازشریف، کبھی مسلم لیگ ق، کبھی اسٹیبلشمنٹ اور اب پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے امیدیں وابستہ ہیں۔ جب وفاق سے حمایت ختم ہوئی تو مسلم کانفرنس آزادکشمیر میں محض تین نشستوں تک محدودد ہو کر رہ گئی۔

اس طرح آپ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو دیکھ لیں اب یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ انہوں نے کتنی جماعتیں تبدیل کی ہیں۔ پیپلزپارٹی میں تھے تو وزارت عظمی پر براجمان ہوئے لیکن اس کے بعد پھر بیرسٹر سلطان نے کبھی اپنی جماعت جس کا نام دو جماعتوں کا مرکب یعنی پیپلز مسلم لیگ تھا جس کا واضع مطلب یہ تھا کہ پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ جس نے بھی قبولیت کا شرف بخشا اسی کے ساتھ چلے جائیں گے۔ پھر پیپلز پارٹی نے نظر کرم کی مگر وزارت عظمیٰ کی کرسی نہ ملی تو اب تحریک انصاف سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں مگران کی امیدوں پر پنجاب حکومت میں موجود ارب پتی کاروباری شخصیت سردارتنویر الیاس پانی پھیرتے نظر آ رہے ہیں،گوکہ سردار تنویر الیاس کا کشمیر کی سیاست سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن چونکہ کشمیر کی سیاست میں سب سے اہم تعلقات اور پیسہ ہے تو کسی بھی وقت پرانے کارکنوں کو عظیم ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے ۔

 

سردار تنویر الیاس نے اسی جماعت کا انتخاب کیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ آئندہ آزادکشمیر میں اقتدار کے تخت پر براجمان ہونے جا رہی ہے۔ آزادکشمیر کی سیاست میں سردار تنویر الیاس ایک انجان شخص ہیں، آزادکشمیر کے لوگوں میں ان کا تعارف محض ایک کاروباری شخصیت سے زیادہ نہیں ہے،لیکن چونکہ پیسے کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ پنجاب حکومت میں بھی عہدہ لیے بیٹھے ہیں اور سب سے اہم بات ان کی طرف سے آزادکشمیر کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 سردار تنویر لیاس کا یہ مطالبہ آنے والے وقت میں سب سے اہم ہو سکتا ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر تو حل ہو گیا ہے، لداخ چین نے لے لیا ہے، گلگت اور آزادکشمیر کو ادھر صوبہ بنایا جا رہا ہے اور پھر مقبوضہ کشمیر میں تو پہلے ہی یونین ٹیریٹری کا اعلان ہو چکا ہے۔ یوں مسئلہ کشمیر کو حل کر دیا گیا ہے اب بس اِس پار بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے یہ رہ گیا ،مطلب کے صوبہ کیسے بنایا جائے اور آزادکشمیر کی کس سیاسی قیادت کے ذریعے یہ مطالبہ کروایا جائے۔ معروف کاروباری شخصیت سردار تنویر الیاس نے یہی مطالبہ کیا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ موصوف مکمل تیاری اور حکمت عملی کے تحت آئے ہیں۔ بحرحال ایک بات ضروری ہے کہ عملی سیاست میں حصہ ہر شخص کا حق ہے لیکن پیراشوٹ کے ذریعے ڈائریکٹ وزارت عظمی کا امیدوار ہونا کوئی سیاست نہیں ہے اور نہ ایسی سیاست کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔

 

بات آزادکشمیر کی سیاسی قیادت اور نظریات کی ہو رہی تھی مگر نظریات کہیں موجود نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ سردار سکندر حیات جیسا شخص بھی مسلم کانفرنس چھوڑ کر اقتدار میں آنے والی جماعت کو پیارے ہوئے اور کوئی بعید نہیں کہ آئندہ کیا ہو گا۔ مسلم لیگ نواز آزادکشمیر کے صدر راجا فاروق حیدر بھی مسلم کانفرنس سے راہیں جدا کر کے اقتدار میں آئے اور یہی حال حلقے کی سیاست کا ہے جہاں کچھ سیاسی کارکن گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور کچی سڑکوں، ٹوٹی کھمبے کی سیاست کر رہے ہیں۔

سردار تنویر الیاس کے انتخابی سیاست میں آنے اور حلقہ وسطی باغ سے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد آزادکشمیر میں ایک بحث چل پڑی ہے لیکن میرے خیال سے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے مشتاق منہاس بھی سابق وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر سیاست میں آئے اور رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے علاوہ موجودہ صدر آزادکشمیر سردار مسعود خان بھی طاقتور حلقوں کی جانب سے آزادکشمیر میں پیراشوٹ کے ذریعے کرسیِ صدارت پر فائز ہوئے، سردار تنویو الیاس کی انٹری سردار مسعود خان کا ہی دوسرا رخ سمجھا جا رہا ہے جیسے راتوں رات ان کو لایا گیا اب موصوف کے لیے بھی ایسی ہی پچ تیار اور ہموار کی جا رہی ہے۔

اس پچ پر بیرسٹر سلطان شاید اب جم کر نہ کھیل سکیں کیونکہ بیرسٹر سلطان کی قیادت میں تحریک انصاف آزادکشمیر میں اب تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور نہ ہی موسی الیکٹیبلز کو اپنی طرف متوجہ کر سکی۔ اگر تنویر الیاس آنے والے دنوں میں اپنے ساتھ نئے لوگوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں جو کہ کہا بھی جا رہا ہے کہ ان کے ساتھ لوگوں کے رابطے ہیں تو بیرسٹر سلطان کو مائنس کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔

آزادکشمیر کے اقتدار میں اس بار سردار عتیق احمد خان بھی حصے دار ہونگے لیکن اگر سردار مسعود خان موجود رہتے ہیں تو مسلم کانفرنس کا حال بھی جماعت اسلامی والا ہی ہو گا، اس صورت میں سردار عتیق احمد خان اور بیرسٹر سلطان ایک دوسرے کے لیے سہارا بھی بن سکتے ہیں۔ بحرحال آنے والے دنوں میں دیکھیے کیا ہوتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ پیراشوٹر سیاسی کارکنوں سے زیادہ تگڑے ہوتے ہیں اور ایسا ہی چلتا رہے گا۔

Comments are closed.