پاکستان میں یونین کونسل کے سیکرٹری کے نخرے اور عام آدمی کی مشکلات

تحریر: دانیال مصطفی گوپانگ

گزشتہ روز میرے بچپن کے دوست جنید کی کال موصول ہوئی۔ فون اٹھاتے ہی وہ غصے میں سرکاری اداروں کو کوسنا شروع ہو گئے۔ جب انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی تو میں نے دریافت کیا کہ بھائی آخر ہوا کیا ہے؟ تو جواب ملا کہ دو ہفتے قبل اپنے بچوں کے برتھ سرٹفکیٹ کے لئے جام پور کی یونین کونسل (نام حذف کر رہا ہوں) میں جانا ہوا۔ وہاں ان سے پہلے ہی سائلین کی ایک لمبی قطار موجود تھی جو چالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں لائن لگی ہوئی تھی۔

ایسے میں خدا خدا کر کے ان کی باری آئی تو دفتر میں موجود شخص (سیکریٹری کا پرائیویٹ فرنٹ مین) نے فی سرٹفکیٹ پانچ سو روپے فیس رقم طلب کی۔ ساتھ ہی انہیں یہ یقین دہانی کروائی کہ آپ لوگ گرمی میں نہ تنگ ہوں ان کو سیکریٹری صاحب کے صاحبزادے خود کال کر لیں گے اور بغیر کسی لائن کے کام ہو جائے گا۔ بہرحال انتظار کرتے کرتے جب دو ہفتے چلے تو وہ یونین کونسل کے دفتر گئے او ر سرٹفکیٹ کے بارے میں دریافت کیا تو وہاں بیٹھے شخص نے انہیں پہچاننے سے ہی انکار کر دیا۔ جو نمبر انہیں دیا گیا اس پر کال کی تو کہا گیا آپ دو سے تین دن بعد تشریف لائیے گا۔

یہ کہانی میرے تک پہنچی تو میں نے فوراً اپنے محکمہ ریونیو کے رپورٹر سے دریافت کیا کہ برتھ سرٹیفکیٹ کی فیس آخر ہے کیا تو علم ہوا کہ سرکاری فیس تو صرف دو سو روپے ہے۔ جس کے بعد اس یونین کونسل کے سیکریٹری کو کال اور انہیں مدعا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ وہاں پر چلے جائیں اور ان کے صاحبزادے سے بات کروا دیں وہ کام کروا دیں گے۔ میرے دوست وہاں پہنچے تو سیکریٹری صاحب جو کہ خود تو پتہ نہیں کتنا روزہ دورہ لاہور پر موجود ہیں کے صاحبزادے قائمقام سیکریٹری کی بھاری بھر کم ذمہ داری سرانجام دے رہے تھے۔ انہوں نے پہلے تو پیسے لینے سے انکار کر دیا۔

لاہور سے بار بار انہیں ٹیلی فون کالز کرنے اور یہ باور کروانے کے بعد کہ آپ ایک یونین کونسل کے سرکاری دفتر میں موجود ہیں اور جس کرسی پر آپ موجود ہیں اس کرسی پر آپ کے والد محترم کے علاوہ کوئی بیٹھ بھی نہیں سکتا، آپ تو نہ صرف براجمان ہیں بلکہ سرکاری فیس سے بھی زیادہ فیس وصول کر رہے ہیں تو آپ اور آپ کے والد محترم پر نہ صرف اینٹی کرپشن کی ایف آئی آر اور گرفتاری بنتی ہے بلکہ سیکریٹری صاحب بھی نوکری سے فارغ ہوجائیں گے۔ جس کے بعد سیکریٹری صاحب کے صاحبزادے نے سر کھجاتے ہوئے فرمایا کہ ان کی جگہ پر ایک اور شخص ہوتا ہے جو آج کل چھٹیوں پر موجود ہے تو شاید اس نے پیسے لئے ہوں گے۔ ساتھ ہی ان صاحب نے ایک سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا جس میں سے دو ہزار روپے بھی نکل آئے۔
جس کے بعد ان صاحب نے اپنے والد یعنی کہ سیکریٹری یونین کونسل کو کال کی اور پھر میرے دوست سے بات کروائی۔ جس کا منبع یہ تھا کہ پیسے بھی مل گئے ہیں اور جس نے لئے ہیں وہ چھٹی پر ہے تو جب وہ آیا آپ کو کال کر لیں گے، آپ آ کر اس شخص کی پہچان بھی کر لیجیے گا اور اس کے سامنے پیسے دینے کا بول دیجئے گا، آپ سے جو اضافی پیسے لئے گئے تھے وہ واپس ہو جائیں گے۔

قارئین کرام اتنا تفصیل میں یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد اس ملک اور اس کے نظام کے ساتھ کیے جانے والے اس بھیانک مذاق کو اجاگر کرنا تھا۔ کتنا بدقسمتی ہے کہ بھاری تنخواہوں اوپر کی کمائی کے باوجود بھی سرکاری ملازمین صاحبان دفاتر میں تشریف لانا مناسب نہیں سمجھتے بلکہ اپنے بچوں، قریبی رشتہ داروں کے ذریعے یہ دفتر چلاتے ہیں۔ میرے دوست کے مطابق کہ اس سیکریٹری صاحب کے سپوت کو انگریزی میں نام بھی لکھنا نہیں آ رہا تھا۔

نام کے سپیلنگ بھی وہاں لائن میں موجود ایک سائل نے بتائے۔ اور تو تین گھنٹے لگا کر صرف ایک سرٹفکیٹ نکلا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نہ صرف پرائیویٹ بلکہ نا اہل شخص کو سیکریٹری صاحب اپنی جگہ پر بٹھا کر لاہور میں موجود تھے۔ یہ جام پور کی ایک یونین کونسل کی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کی تقریباً تمام ہی یونین کونسلز کی کہانی ہے۔

اس تمام قصے کے اختتام پر میرے ساتھ بیٹھے کولیگ نے مجھے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ جا یار کیوں گھر بار سے دور اتنی کم تنخواہ وہ بھی ٹائم پر نہیں ملتی کے لئے خجالت کاٹ رہے ہو۔ جاکر وہاں کسی یونین کونسل کے سیکریٹری ہی لگ جاؤ، اگر سیکریٹری نہیں بھی لگتے تو کسی سیکریٹری کے پرسنل اسسٹنٹ لگ جاؤ۔ نہ صرف معاش کی فکر رہے گی، تعلقات بھی الگ بن جائیں گے، علاقے کے لوگوں پر احسان بھی لگاتے رہنا۔ میں بھی یہی سوچ رہا کہ بہتر نہ ہوتا کہ اس وقت کسی کو کہہ کہلوا کر یونین کونسل کا سیکریٹری ہی لگ جاتا

نوٹ: یہ کالم اس سے قبل ہم سب میں بھی شائع ہوچکاہے

Comments are closed.