پاکستان کی صحافت میں محمد ضیا الدین کو ایک ایسے صحافی کے طور پر جانا جائے گا جس نے ہر دور حکومت میں سچ کا ساتھ دیا۔ تراسی سال کی عمر میں وفات پانے والے سینیئر صحافی کے چلے جانے پر سبھی یہ اعتراف کر رہے ہیں ھے کہ ان کی زندگی موجودہ دور کے صحافیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
دو تین بار بےنظیر بھٹو سے ان کی وزارت عظمی کے دوران ملاقاتوں میں ضیا الدین صاحب اور محترمہ کی آپس میں خاصی بحث ہوتی تھی۔ ایک بار تو بے نظیر بھٹو نے انھیں کہا ،، ضیا صاحب، آپ کا لب و لہجہ اتنا سخت کیوں ہے تو ضیا صاحب نے جواب دیا کہ میرا کام آپ کو سچ بتانا ہے، خوشامدی تو آپ کے ارد گرد بہت ہیں۔‘
سنہ 1938 میں انڈیا کے شہر مدراس میں پیدا ہونے والے محمد ضیا الدین اپنے خاندان کے ساتھ پہلے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ اور پھر 1960 میں 21 سال کی عمر میں کراچی پہنچے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ہی ان کے صحافتی سفر کا آغاز ہوا جس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں ہی وہ روزنامہ ڈان سے وابستہ ہو گئے اور پڑھائی مکمل ہوتے ہی پاکستان سپاٹ لائٹ کے نام سے ایک ماہانہ میگزین جاری کیا جو زیادہ عرصہ نہیں چل سکا۔
پاکستان پریس ایجنسی نجی کمپنی کے ساتھ کام کیا لیکن یہ پاکستان میں صحافت کے لیے کچھ اچھا دور نہیں تھا۔ ایک جانب صدر ایوب دوخان کی سخت پالیسیاں تھیں تو دوسری جانب میڈیا مالکان ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت تنخواہیں ادا کرنے سے انکاری تھے۔

1970 کی دہائی میں محمد ضیاالدین نے پہلے پاکستان اکانومسٹ اور بعد میں مارنگ نیوز میں شمولیت اختیار کی۔ کراچی میں بیس سال گزارنے کے بعد 1978 میں ضیا الدین نے اسلام آباد آ کر دی مسلم اخبار جائن کیا جہاں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں اخبار کی کاپی کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے کلیئرنس درکار ہوا کرتی تھی۔
ان کی صحافتی زندگی کا دورانیہ تو پچاس سال سے زیادہ کے عرصے پر محیط ہے لیکن اس کا عروج 1982 میں روزنامہ ڈان میں شمولیت سے شروع ہوا۔
ان کے دیرینا ساتھی ناصر ملک کے مطابق ’جنرل ضیا الحق کی آمریت ہو یا بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت۔ نواز شریف کی وزارت عظمی ہو یا جنرل مشرف کا دور، ضیا الدین نے وہی لکھا اور کہا جسے وہ سچ سمجھتے تھے۔
ڈان میں محمد ضیا الدین کے ساتھ کام کرنے والے ناصر ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ضیا صاحب نے کبھی کسی کو خوش کرنے کے لیے نہیں لکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘بے نظیر بھٹو دو صحافیوں کے بہت قریب تھیں جن میں سے ایک ایچ کے برکی اور دوسرے ضیا الدین تھے اور اکثر ان سے مشورہ کرتی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے اس تعلق کو اپنی صحافت پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔

ناصر ملک کہتے ہیں کہ ’بےنظیر بھٹو نے اپنے دونوں دورِ حکومت میں یہ آفر کی کہ ضیا الدین ان کے مشیر بن جائیں لیکن ضیا صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ ‘میں صحافی ہوں اور صحافی ہی رہوں گا’۔
محمد ضیا الدین کی صحافتی زندگی سے جڑی وابستگی کا ایک اور قصہ سناتے ہوئے سینیئر صحافی ناصر ملک نے بتایا کہ جب کوئی نیا رپورٹر بھرتی کرنا ہوتا تھا تو ضیا صاحب سینیئر لوگوں کی ڈیوٹی لگاتے تھے کہ بیک گراوئنڈ چیک کریں۔ ‘ضیا صاحب کہتے تھے کہ خبر بنانے میں اگر کوئی کمزوری ہو تو خیر ہے، لیکن اخلاقی کمزوری نہیں ہونی چاہیے، بندہ کرپٹ نہیں ہونا چاہیے۔
ناصر ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ ضیا الدین بطور ایڈیٹر اپنے کام پر دوستی کو بھی اثر انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈان اخبار میں ایک سیاست دان جن کی ضیا الدین سے دوستی تھی اکثر اپنی خبریں لگوانے کے لیے دیتے تھے لیکن میں نے بطور نیوز ایڈیٹر کبھی ان کی خبر نہیں چھاپی کیوں کہ مجھے علم ہوا کہ دیگر اخبارات میں وہ اپنی خبر لگوانے کے لیے لفافے بھی دیتے تھے۔
‘کئی بار اس سیاست دان نے دفتر آکر ضیال الدین صاحب سے میری شکایت کی۔ ضیا صاحب مجھے بلاتے تھے اور ان کے سامنے پوچھتے تھے کہ خبر کیوں نہیں لگائی تو میں کوئی نا کوئی بہانہ کر دیتا لیکن اگلے دن پھر خبر نہیں لگاتا تھا تو ضیا صاحب نے کبھی مجھ سے نہیں پوچھا کہ تم نے میرے دوست کی خبر کیوں نہیں لگائی۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
Comments are closed.