کیا پاکستانی معاشرہ اجتماعی نروس بریک ڈاون کا شکار ہو چکا؟

تحریر:ممتاز حسین

پاکستان میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ چکی، آئے روز پیش آنے والے واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ اپنی تمام انسانی اور اخلاقی قدریں کھو چکاہے ، سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کو بہیمانہ تشدد اور زندہ جلا دینے کا دل دہلا دینے والا واقعہ ہو یا پھر فیصل آباد میں مبینہ طور پر چوری کے الزام پر دو خواتین پر دکانداروں کا وحشیانہ تشدد اور پھر بھرے بازار میں برہنہ کر کے ڈنڈے مارنے اور ویڈیوز بنا کر وائرل کرنے کا سفاک اقدام، یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ انسانیت کی تمام قدریں کھو چکا ہے اور اب یہاں انسان نہیں بلکہ وحشی درندے ہیں جو جب چاہیں جہاں چاہیں کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر زندہ جلا دیں یا پھر کسی بھی غریب خاتون کو بے لباس کر دیں۔

یہ اپنی نوعیت کے پہلے واقعات ہر گز نہیں،ماضی میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، پہلے کبھی کبھار کسی گاؤں میں جاگیردار، وڈیرہ کسی غریب کو معمولی الزام پر تشدد کا نشانہ بناتا، یا کسی کی بہن، بیٹی کی عزت پامال کی جاتی تھی لیکن اب تو شہروں میں بسنے والے خود کو مہذب شہری کہلانے والے بھی وحشی درندے بنے گئے۔ اسلام آباد ایک پوش سیکٹر میں نوجوان لڑکی اورلڑکے پر عثمان مرزا اور اس کے ساتھیوں نے تشدد کیا، نازیبا ویڈیوز بنا ئی گئیں۔۔اس کے بعد مجرمان کو سخت سزائیں دینے کی یقین دہانیاں بھی کرائی گئیں لیکن اس کے باوجود عدم برداشت کے ایسے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جب حکمران وقت مذہب کو سیاسی اور نام نہاد مذہبی جماعتوں کے قائدین ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے رہیں گے اور ریاست ان کے سامنے بے بس رہے گی تو کوئی بھی اٹھ کر کسی بھی وجہ سے توہین مذہب کے نام کسی کو بھی بے دردی سے قتل کرتا رہے گا،ماضی میں خیبرپختونخوا کا مشعال خان ہو، سرگودھا کا بینک مینجر یا سری لنکن پریانتھا کمارا ایسے ہی ناحق قتل ہوئے۔

ناموس رسالت کے جھوٹے رکھوالے جو سری لنکن شہری کی لاش پر تشدد کرتے رہے کوئی ان سے پوچھے کہ کیا دین اسلام یا نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امن کے پیغام کو انہوں نے سمجھا ہے، کیا دین یہ کہتا ہے کہ انسانوں کو اس طرح بے دردی سے قتل کرو، ظلم کرو اور لاشوں کی بے حرمتی کرو۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔

جہاں تک فیصل آباد سانحہ کی بات ہے تو تھانہ ملت ٹاؤن پولیس نے اس انسانیت سوز واقعہ کا مقدمہ متاثرہ خاتون آسیہ بی بی کی مدعیت میں درج کر لیا ہے، خاتون کے مطابق وہ اپنی دو ساتھی خواتین کے ہمراہ کاغذ چننے کا کام کرتی ہے، واقعہ کے روز بھی کاغذ چننے کے دوران پیاس لگنے پر وہ سڑک کی دوسری جانب واقع الیکٹرونکس شاپ میں پانی پینے کے لئے گئی، دکاندار نے چوری کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا، دکان میں بند کیے رکھا جس کے بعد بازار میں برہنہ کر کے مارتے رہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز اور سڑک پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون کے دکان کے اندر داخل ہونے کے بعد دکاندار شٹر بند کر دیتا ہے جب کہ دوسری خاتون کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے اٹھا کر دکان میں پھینکتا ہے،کیا غربت ان خواتین کا قصور تھا، کیا غریب کاغذ چننے والی عورت کی عزت نہیں ہوتی، جسے بھرے بازار میں بے لباس کر کے اس قدر ذلیل کیا جائے خود برہنہ کھڑی متاثرہ عورت دوپٹے سے اپنی بیٹی کے ننگے جسم کو ڈھانپنے کی کوشش کرتی تو انسانوں کی شکل میں حیوان ان سے چادر بھی کھینچ لیتے۔ انہیں اپنی ماں، بہن یا بیٹی کا خیال نہیں آیا۔

اگر خواتین نے چوری کی بھی ہے تو کیا اس ملک میں قانون یا ادارے موجود نہیں، ہر شخص اپنی عدالت لگا کر خود مدعی، خود منصف بن کر فیصلے سناتا اور پھر اس پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے جس کسی کو چاہے تشدد کا نشانہ بنائے یا پھر توہین مذہب کا الزام لگا کر سر عام قتل کر کے لاش کو جلا دے۔

سٹی پولیس آفیسر ڈاکٹر محمد عابد خان کے مطابق واقعہ مرکزی تین ملزمان سمیت پانچ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ دیگر نامعلوم ملزمان کی گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے، ملزمان کی جانب سے خواتین کو تشدد کے بعد برہنہ کیا گیا تھاجس پر فوری طور پر قانون کے مطابق کارروائی کی گئی،ملزمان کو کڑی سزا دی جائے گی۔

Comments are closed.