ویسے دلال کے لغوی معنی بروکر،مڈل مین کے ہیں۔۔لیکن اس تحریر میں اس کا قطعا یہ معنی نہیں لینا۔۔۔جس شخص ،چیز کے لیے یہ لفظ زبان زد عام ہے ۔وہی معنی آپ نے بھی سمجھنے ہیں ۔ویسے آج جو واقعہ میرے سامنے پیش آیا اور جو آپ احباب سے شئیر بھی کرنا چاہتا ہوں ،ایسے معاشرتی حیوانوں کے لیے زیادہ بڑی گالی ایجاد ہونی چاہیے لیکن چلیں خیر۔۔فلحال اسی سے گزارا چلاتےہیں۔۔
لکھنا تو اچھے انداز میں چاہتا تھا ،کیونکہ اس میں اور میرے میں کوئی فرق نہیں رہے گا،لیکن آج کے لیے معافی۔
اسلام آباد کے گرد و نواح سے جتنے لوگ جاب پر آتے ہیں زیادہ تر پرائیوٹ گاڑی نما ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں ،(مطلب جو لوگ جاب کرنے آتے ساتھ دو تین بندوں کو گاڑی میں ایڈجسٹ کر لیتے ہیں ۔ان سے اب سے بطور سواری پیسے لیتے ہیں ان کا پٹرول بھی نکل آتا ہے اور اسلام آباد آنے والوں کو بھی آسانی ہو جاتی )
ایسی ہی گاڑی میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا میرا۔تو حسن اتفاق یہ تھا کہ ایک لڑکی بھی کھڑی تھی اس سے گاڑی والے نے پوچھا ابپاراہ جانا ہے۔ڈرائیور بولا جی ۔فرنٹ سیٹ پر بٹھا لیا،اور سفر کا آغاز ہو گیا۔اب ڈرائیور جو تھا اس کی عمر لگ بھگ 55 سے 60 کے درمیان ہو گی ،اور اس کا دوست ہی ہو گا جیسی وہ لوگ باتیں کر رہے تھے ،ان صاحب کی عمر بھی اتنی ہی ہو گی ۔لیکن لڑکی کے بیٹھتے ہی صاحب کے تیور تبدیل ہو گئے ۔عمر کے اس حصے میں وہ فنکاریاں کرتے دیکھا انہیں ، جو 18یا 20سال کے لڑکوں کی ہونی چاہیں ۔۔۔۔
لڑکی آبپارہ سے پہلے اتر گئی ۔پھر وہ صاحب ان کے دوست وہ باتیں شروع ہو گئے،اور لڑکی کے ظاہری خدوخآل پر تنز و مزاح کرتے ہوئے چسکے لینا شروع ہو گئے ۔وہ باتئیں جو شاید نہ لکھ سکوں لیکن آپ سوچ سکتےہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس لڑکی اور ان صاحب کی عمر میں کوئی کم و پیش 20 سال کا فرق ہو گا۔میں نے ان سے پوچھ لیا جناب آپ کی اپنی اولاد ہے ،بیٹیاں بھی ہوں گے ،کہنے لگے جی ہیں لیکن پھر بھی انہیں سمجھ نہیں آئی تو ہلکا سا سمجھایا کہ جیسا اپنی اولاد کو دیکھتےہیں ویسا ہی دوسروں کی اولاد کے لیے سوچ لیں ۔تو بابا جی اچھے خاصے ناراض ہوئے اور گاڑی بھگا دی ۔اور جاتے جاتے مجھے اچھا سا مشورہ دیا کہ اپنے کام سے کام رکھا کریں ۔جی جیسے آپ کہتےہیں ایسا ہی کروں گا۔
یہ حیوان قانون قدرت کو مانیں یا نہ ،سائنس کو ہی مان لیں۔۔ہر ایکشن کا ری ایکش لازمی ہوتا ہے ۔تو پھر ایکشن ایسا ہو گا تو کل کوئی بھی آپ کی بیٹی کے ساتھ ڈیٹ پر بیٹھا ہو گا۔تب سمجھ آئے یا شائد تب بھی نہ آئے ،شاید غیرت کے نام پر قتل ہی ہو جائے۔کیونکہ ہم عقل سے عاری لوگ ہیں الحمداللہ۔۔۔
دوسرا آپ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ،اتنی فرسٹریشن کسی بھی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کے لیے کافی ہے ۔اب اس کا حل کیا ہے ۔میری سمجھ سے تو بالا تر ہے ۔لیکن ہر شخص سمجھ لے کہ ایک قدرت اوپر بیٹھی ہے ،کہیں نہ کہیں اپ کو ڈھیل ملی ہوئی ہے تو اس کا ناجائز فائدہ نہ ہی اٹھایا جائے تو بہتر ہے ۔کیونکہ جب پکڑ ہو گی اور اپ کو گیلے جوتے پڑ رہے ہوں گے تو اس وقت سمجھ نہیں انی کہ کدھر جائیں اور کدھر نہیں ۔۔۔
خدا راہ اپنے آپ کو بھی کبھی سمجھانے کی کوشش کریں ،اور دوسرا ہم ٹھیکدار بھی ہیں اسلام کے ،تو اس کے کسی بنیادی اصول پر تو عمل پیرا ہو جائیں ،دوسرے کی عزت اور مال کی اتنی ہی حفاظت کریں جتنی آپ اپنے کی کرتے ہیں ۔
نوٹ: نیوز ڈپلومیسی اور اس کی پالیسی کا رائٹرکے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Comments are closed.