یوم پاکستان کو بارسلونا میں مانے کی ایک دلچسپ تاریخ ہے لیکن یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تین برس سے پاکستان کی تقریبات بارسلونا میں موجود پاکستانی قونصل خانہ کے زیر اہتمام ہونے لگی ہیں. یہ بات قابل تحسین ہے بوجہ اس رہنمائی کے جس نےدھڑے بندیوں میں تقسیم پاکستانی کمیونٹی کو متحد کر کے ایک سبز ہلالی پرچم کے نیچے لا اکٹھا کیا ہے.
رواں ماہ کی ١٨ تاریخ کو بارسلونا کے ایک تاریخی تھیٹر میں یوم پاکستان کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا. اس موقع پر ایک نئی تاریخ رقم ہوئی کیونکہ اس سال کچھ ایسے کام ہوئے جو گزشہ برسوں میں کبھی نہیں ہوئے تھے. آج کا تبصرہ انہی مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی غرض سے لکھا جا رہا ہے.
اسپین کے صوبہ کتالونیا میں پاکستانیوں کی بڑی مہاجرت کی پہلی لہر کوئی دو دہائی قبل آئی اور اس کے بعد ایک سلسلہ آمد جاری ہوا یہاں تک کہ اب تعداد کوئی ایک لاکھ سے شائد تجاوز کر چکی ہے. انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی جنم بھومی سے لگاؤ رکھتا ہے لہٰذا پاکستانیوں کے پاس اگرچہ ہسپانوی پاسپورٹ بھی آ چکا ہے لیکن ان کا لگاؤ پاکستان سے ہی ہے. یہی وجہ ہے کہ پاکستانی تقریبات کو صوبہ کتالونیا کے دارالحکومت بارسلونا میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا رہا لیکن الگ الگ تقسیم ہو کر. اس پہلو پر تفصیل سے بات گزشتہ آرٹیکل میں ہو چکی ہے لہٰذا آگے بڑھتے ہیں.
اس مرتبہ جو امر پہلی بار ہوا، وہ یہ تھا کہ اس شو کی مکمل تھیم سیکولر انداز میں بنائی گئی تھی. جہاں تلاوت قرآن پاک ہوئی اور پھر قصیدہ بردہ شریف بڑھا گیا، وہاں رقص و موسیقی بھی ہوئی. پھر موسیقی پر رقص کا دیسی کے ساتھ ولایتی امتزاج نہایت دلچسپ تھا. بچیوں کی کرکٹ ٹیم کو بلوانا بھی پہلی بار ہوا. ایک اور دلچسپ اور نہایت عمدہ پہل یہ ہوئی کہ میزبانی کے لئے ایک مقامی خاتون کی خدمات حاصل کی گئیں. مزید آگے بڑھتے ہیں، قونصل جنرل آف پاکستان نے جو پریزنٹیشن دی تھی، اس میں تاریخ اور حال کے تناظر میں کھیل و تقافت کی جانب جھکاؤ کے بارے میں بتانا دلچسپ تھا. دونوں ملکوں کے قومی ترانے بجائے گئے اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا تھا.
قارئین، ہر کاذ کا ایک افیکٹ ہوتا ہے یعنی ہر وجہ ایک تحریک کو جنم دیتی ہے. مندرجہ بالا آئٹمز کے کاذ اینڈ افیکٹ پر جانے سے پہلے اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ نت نئی ریت ڈالنے کے ساتھ ساتھ کچھ آئٹمز روایتی بھی تھے مثال کے طور پر مقامی سیاستدانوں کو مدعو کرنا. آج سے پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے جب ہر گروہ اپنا اپنا مقامی سیاستدان بلوا لیا کرتا تھا. اسی طرح ایوارڈ دینے کا سلسہ بھی بہت پرانا ہے. شعر و شاعری بھی پرانا رواج ہے. پڑھے لکھوں اور کھلاڑیوں کی پذیرائی بھی بہت پرانی ریت ہے. پھر سیاسی سماجی وہی شناسا لوگ جو ہر بار ہر سٹیج پر ہوتے ہیں، اس میں کچھ نیا نہیں تھا. ویسے ان سیاسی سماجیوں کے آنے میں کوئی حرج یا برائی بھی نہیں ہے.
اب جائزہ لیتے ہیں کہ جو آئٹمز نئی تھیں ان کا ممکنہ افیکٹ کیا ہوگا؟ سب سے پہلے تبصرہ کی جسارت قونصل جنرل صاحب کی پریزنٹیشن پر. گزشتہ ادوار میں اگر کسی کو توفیق بھی ہوئی پریزنٹیشن دینے کی تو انہوں نے فوج کی دھاک گولہ بارود اور دیگر حقیقت سے دور صنعتی ترقی ہوتی دکھائی. مقامی لوگ اس سے کیا تاثر لیتے تھے؟ قارئین اگر آپ کے مقامی دوست ہیں تو ان کو ایسی حقیقت سے ماورا فلمیں دکھا کر پوچھ لیجئے، وہ اوپر سے چپ کر جاتے ہیں لیکن بعد میں ٹھٹھہ اڑاتے ہیں. لیکن جو پریزنٹیشن حالیہ یوم پاکستان پر دکھائی گئی، اس سے تاثر بڑا حقیقی اور مثبت گیا ہے کہ پاکستان میں موسیقی پر کام ہو رہا ہے، نوجوان کھیلوں میں دلچسپی لے رہے ہیں، لوگ پاکستان سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آ رہے ہیں. اسکے بعد مقامی خاتون کی میزبانی یہاں کے لوگوں کو یہ تاثر دے گئی کہ اب پاکستانی بھی سماجی انضمام کی جانب چل پڑے ہیں. اور پھر خواتین کی اتنی بڑی تعداد نا صرف حاضری کے لئے تھی بلکہ وہ تمام خواتین فعال تھیں. مطلب پاکستانی اب ماچوازم سے بھی بہتری کی جانب گامزن ہے.
قارئین کرام، لکھنے لگیں تو ابھی بہت کچھ مزید مثبت لکھا جا سکتا ہے لیکن کہیں پر تو تحریر کو اختتام بھی دینا ہے لہذا خلاصہ یہ ہے کہ تمام شو اپنی رعنائیوں کے ساتھ اور چمک دمک کے ساتھ اپنا مقصد پورا کر گیا اور وہ تھا یوم پاکستان پر پاکستان کی بہتر تصویر. یہاں صرف قونصل جنرل اور شو کی انتظامیہ ہی قابل تحسین نہیں اس بات کی بھی اب تاریخ رقم ہو چکی ہے کہ تمام پاکستانی جو اپنے اپنے دھڑوں میں تقسیم رہا کرتے ہیں، وقت پڑنے پر اپنی اپنی رنجشیں بھلا کر ایک سبز ہلالی پرچم کے نیچے متحد ہو کر بھی کھڑے ہو سکتے ہیں. اس بات پر تمام پاکستانی کمیونٹی قابل تحسین ہے. پاکستان پائندہ باد.
Comments are closed.