یوم شہدائےکشمیر

تحریر: محمد شہباز

اسلام آباد: کنٹرول  لائن کی دونوں جانب ، پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری آج13 جولائی 1931 کے شہدااورتحریک آزادی کشمیرکے دیگر لاکھوں شہداکو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے یوم شہدائے کشمیر اس عزم کی تجدید کے ساتھ منارہے ہیں،کہ شہدا کے مشن کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے غاصب بھارت کے ناجائز قبضے کے خلاف جدوجہد جارری رکھی جائے گی۔یوم شہدا کشمیر ان22 فرزندان توحید کی یاد میں منایا جاتا ہے ،جنہیں 1931 میں آج ہی کے دن سرینگر سنٹرل جیل کے احاطے میں ڈوگرہ فوجیوں نے گولیاں مار کر شہید کیا تھا۔13 جولائی 1931 کے شہدانے شخصی راج کے خاتمے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کی آزادی کے حصول کیلئے کشمیری عوام کی مزاحمت کا ایک نیا باب لکھا ہے۔ 13 جولائی 1931 ظالم ڈوگرہ حکمران کے خلاف کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 13 جولائی 1931 کے شہدا کی بہادری اور قربانیاں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ کا سنہری باب ہیں۔کشمیری عوام جدوجہد ازادی جاری رکھنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرنے کیلئے 13 جولائی 1931 کو ہر سال یوم شہدا کے طور پر منارہے ہیں۔کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی شہداکے خون سے عبارت ہے۔ شہدا کا خون مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام کیلئے روشنی کی ایک کرن ہے ۔شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ مقبوضہ جموں وکشمیر پر غاصبانہ بھارتی قبضے کے خلاف مشترکہ طور پر جدوجہد کرنا ہے۔
ڈوگرہ مہاراجہ کے سپاہیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے والے افراد ان ہزاروں لوگوں میں شامل تھے جو عبدالقدیر نامی ایک شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت کے موقع پرسرینگر سینٹرل جیل کے باہر جمع ہوئے تھے جس نے کشمیری عوام کو ڈوگرہ حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کیلئے کہا تھا۔ نماز ظہر کے وقت ایک کشمیری نوجوان نے اذان دینا شرو ع کی جسے مہاراجہ کے فوجیوںنے گولی مارکر شہید کیا۔اس کے بعد ایک اور شخص اذان پوری کرنے کیلئے اگے بڑھاتو اسے بھی شہید کردیا گیا۔ یوں اذان کی تکمیل تک 22کشمیری نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔تب سے 13جولائی کو یوم شہدائے کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں آج مکمل ہڑتال ہے اور سرینگر کے نقشبند صاحب میں واقع شہداقبرستان کی طرف مارچ کیا جارہا ہے جہاں 13 جولائی1931 کے شہدامدفون ہیں۔ ہڑتال کی کال جماعتی حریت کانفرنس نے دی ہے اور تمام آزادی پسند رہنماوں اور تنظیموں نے اس کی حمایت کی ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس نے اہل کشمیرسے پہلے ہی اپیل کی تھی کہ وہ ہڑتال اور مارچ کو کامیاب بنائیں تاکہ دنیا کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ جموں و کشمیر کے لوگ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت تنازعہ کشمیر کے پرامن حل پر یقین رکھتے ہیں اور وہ غیر قانونی بھارتی قبضے کو قبول کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں ۔کشمیری شہداکو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آزاد کشمیر، پاکستان اور دنیا کے تمام بڑے دارالحکومتوں میں ریلیاں، سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا گیاہے ۔جبکہ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میںبھارتی سفارتی خانے کے باہر احتجاج اور مظاہرہ کیا گیا جس کا اہتمام کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں وکشمیر شاخ نے کیا تھا۔

اہل کشمیرنے 13جولائی 1931کے شہداکو جہاں شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تحریک آزادی کے شہداکے عظیم مشن کی تکمیل تک جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے،وہیں 13 جولائی 1931 کا دن جموں و کشمیر کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے اور یہ کہ کشمیری عوام ظلم وجبر او ر غلامی سے نجات کے لیے آج بھی عظیم قربانیاں دے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کشمیری عوام نے ہمیشہ ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور غیو ر کشمیری نوجوان 13 جولائی کے شہداکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے آزادی کی شمع روشن رکھے ہوئے ہیں۔بلاشبہ 13 جولائی 1931 کے عظیم شہدانے ڈوگرہ سامراج کے خلاف آواز بلند کی اور اپنا مقدس خون بہا کر یہ پیغام ہے کہ کشمیری عوام کیلئے بھارتی غلامی ہرگز قبول نہیں ہے۔13جولائی 1931کے شہدا کی قربانیوں سے ڈوگرہ سامراج کا خاتمہ ہوا اوراہل کشمیر کی عظیم اور لازوال قربانیوںسے برہمن سامراج کا بھی یہی انجام ہونا ہے۔تاریخ سے ثابت ہے کہ جابر طاقتوں کے خلاف جدوجہد میں مصروف قوموں کا خون کبھی رائیگاں نہیں گیا او رکشمیری عوام کی جدوجہد بھی ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔
بھارت کی تمام تر سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جبر و استبداد کے ہتھکنڈوں کے باوجود اہل کشمیرکے حوصلے کل بھی بلند تھے،آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔کشمیری عوام حق خود ارادیت کی اپنی جدوجہد کو اسکے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پرعز م ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر جنوبی ایشیامیں پائیدار امن و ترقی کا خواب گزشتہ 76 برسوںسے تشنہ تعبیر ہے اور جب تک اس مسئلے کو کشمیری عوام کی امنگو ں اور خواہشات کے علاوہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں کیا جاتا ،جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ہوگا اور بھارت تمام مظالم اور اپنے ترکش کے تیر ازما کر دیکھ چکا ہے ۔وہ اہل کشمیر کو زیر نہیں کرسکا۔اب تو بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ حال ہی میں سرینگر میں منعقدہ ججز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صرف ایک جملے میں سارا ماجرا بیان کرچکا ہے کہ مجھے یعنی بھارتی چیف جسٹس کو سرینگر میں اپنے خطاب کے دوران لوگوں کے چہروں پر وہ چیز محسوس نہیں ہوئی جو بھارت کی دوسری ریاستوں کے لوگوں کے چہرے دیکھ کر محسوس ہوتی ہے۔13جولائی 1931 کے شہدا ہوں یا موجودہ تحریک آزادی کے شہدا ہوں،یہ اولوالعزم لوگ اہل کشمیر کے ماتھے کا جھومر ہیں،انکے مقدس مشن کو ہرقیمت پر منطقی انجام تک پہنچانا اہل کشمیر پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔ بھارتی حکمران جتنا جلد اس بات کا ادراک کریں کہ جبر و استبداد کے حربوںسے کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔اتنا ہی ان کے اور خود خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے بھارتی عوام کے حق میں بہتر ہوگا۔


کشمیری عوام اپنے شہدا کی قربانیوں کو نہ پہلے بھولے ہیں اور نہ اب بھولیں گے۔ بلکہ کشمیری عوام آزادی کی صبح تک بھارت کے غیر قانونی اور ناجائز قبضے کے خلاف اپنی جدوجہدجاری رکھیں گے۔جس کیلئے سوا پانچ لاکھ کشمیری اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ان قربانیوں کے ساتھ وفا کرنا سرزمین کشمیر کے ایک ایک فرد پر واجب ہے۔

Comments are closed.