اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سید شبر زیدی کا کہنا ہے کہ بیرون ملک پیسہ غیرقانونی طریقے سے نہیں قانونی طریقے سے گیا۔ پاکستان سے باہر جائیدادوں پر کل 4 ارب روپے کا ٹیکس منظر عام پر آیا اور ایک ارب روپے کا ٹیکس ملا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس چیئرمین اسد عمر کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا۔ اجلاس کے دوران چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے بیرون ملک بھجوائے گئے پیسوں کے حوالے سے کہا کہ بیرون ملک پیسہ غیر قانونی طریقے سے نہیں قانونی طریقے سے گیا، 2018 سے پہلے کوئی بھی شخص ڈالر خرید کر باہر بھیج سکتا تھا، پاکستان سے باہر جائیدادوں پر کل 4 ارب روپے کا ٹیکس منظر عام پر آیا اور ایک ارب روپے کا ٹیکس ملا۔
چیئرمین نے کمیٹی کو بتایا کہ 50 ہزار روپے سے زائد کی خریداری پر قومی شناختی کارڈ کی شرط برقرار ہے لیکن اس پر فی الحال عمل درآمد نہیں ہوگا، ٹرن اوور پر ٹیکس کی کم سے کم شرح 1.5 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد کی گئی۔
اجلاس کے دوران ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ بیرون ملک جائیدادیں رکھنے والے 325 کیسز پر کارروائی شروع کی گئی تھی، جن میں سے 135 افراد نے 2018 میں ٹیکس ایمنسٹی حاصل کی جب کہ 2019 میں 56 افراد نے ٹیکس ایمنسٹی حاصل کی۔ 325 میں سے کچھ سیاست دانوں نے ایمنسٹی اسکیم حاصل کی ہے تاہم عوامی عہدہ رکھنے والے کسی سیاست دان نے ایمنسٹی سے فائدہ نہیں اٹھایا، 2018 میں 62 ارب جب کہ 2019 میں 31 ارب 78 کروڑ کا کالا دھن سفید کیا گیا۔
اسد عمر نے کہا کہ ساڑھے پانچ ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی گئی، 800 ارب روپے میں سے صرف ایک ارب روپیہ وصول ہوا، ایمنسٹی میں کہا جاتا ہے کہ ریاست آپ کے سامنے بے بس ہے۔
اجلاس کے دوران اسد عمر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کی جانچ پڑتال میں سیاسی عنصر نظرآتا ہے، 2010 میں پاکستان بلیک لسٹ میں تھا، پاکستان ابھی گرے لسٹ میں ہے اور پھر بلیک لسٹ کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے لیکن افعانستان بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہے۔ اب پھر نئے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان سے پوچھا جا رہا ہے کہ کتنے لوگوں کو مجرم قراردیا گیا، کتنے کو ہتھکڑیاں لگا کرجیل میں ڈالا گیا، ایف اے ٹی ایف نے قانون سازی کے معیار پر بھی سوالات اٹھائے، سول ملٹری، وفاق اور صوبوں کے درمیان کوآرڈینیشن کو کمزور قرار دیا گیا ہے۔
جس پر وفاقی وزیر اقتصادی امور حماد اظہر کا کہنا تھا کہ پاکستان دو بار ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہ چکا ہے، پاکستان کے بارے میں ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس وسط فروری میں ہوگا، پاکستان اپنی دوسری رپورٹ 7 جنوری کو پیش کرے گا، پاکستان کو فروری 2018 میں آئی سی آر جے کا پلان دیا گیا ہے، یہ 27 نکاتی ایکشن پلان ہے، جب ہم حکومت میں آئے 22 نکات پرعمل درآمد نہیں ہوا تھا۔
حماد اظہر کا کہنا تھا کہ حکومت نے اب تک 17 پر نکات پر عمل درآمد کرلیا ہے۔ پاکستان 7 جنوری کو حتمی رپورٹ پیش کرے گا، ایف اے ٹی ایف فروری 2020 میں پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرے گا، آئی سی آر جے کا ایکشن پلان اگلے سال مکمل کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے ٹیکنیکل کنسلٹنٹ تعینات کردیئے گئے ہیں اور آئی ایم ایف، اے ڈی بی اور ورلڈ بینک معاونت کررہے ہیں۔
Comments are closed.