حکومت کا وژن ملک میں یونیورسل ہیلتھ کیئر کوریج یقینی بناناہے، ڈاکٹرظفر مرزا

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ بنیادی صحت کی معیاری سہولیات مہیا کیے بغیر صحت کے شعبے میں بہتری نہیں لا سکتا، حکومت کا اولین مقصد پورے پاکستان میں یو نیورسل ہیلتھ کیئر کوریج کو یقینی بنانا ہے۔

پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیرِ اہتمام حکومت ِپاکستان کے ہیلتھ ویژن سے متعلق ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ شروع سے ہی پاکستان میں ہیلتھ پالیسوں کا فوکس بڑے ہسپتال بنانے اور بیماری کے علاج تک محدود رہا جس میں بنیادی صحت کی معیاری سہولیات پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ تاہم موجودہ حکومت کے ہیلتھ وژن کا مقصد اس سوچ کو بدلنا ہے اور ہیومن کیپٹل پر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہے۔

آٹھارویں ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطے اور تعاون کے فقدان کی وجہ سے شعبہ صحت کے بڑے پروگراموں کو بہت نقصان پہنچا۔ اٹھارویں ترمیم کے اندر رہتے ہوئے وفاقی سطح پر ایک موَ ثر اور مربوط ہیلتھ ریگیولیٹری فریم ورک ہونا چاہیے۔

ڈاکٹر ظفر مرزانے کہا کہ آبادی میں اضافہ ایک بہت بڑا قومی مسئلہ ہے جس پر اگر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان آبادی کے لحاظ سے 2030 تک دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن جائے گا۔

تمباکو کے کنٹرول کے اقدامات کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ حکومت نے تمباکو مصنوعات پر تیسرے درجے کے ٹیکس کا خاتمہ کر دیا ہے اور حکومت پلین پیکیجنگ کی طرف جا رہی ہے جس سے تمباکو کی انڈسٹر ی پر چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے گا۔

ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ 2018 کے انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے صحت انصاف کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا۔ ان کے مطابق صحت انصاف کا ایسا نظام ہونا چاہئے جہاں آمدنی صحت کی سہولتوں تک رسائی میں رکاوٹ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت اس عزم کا اظہار آئی ایم ایف کو لکھے گئے لیٹر آف انٹنٹ میں سوشل پروٹیکشن پالیسی کے حوالے سے کر چکی ہے۔

وازاتِ صحت کی پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا کہ پاکستان میں ہیلتھ سیکٹر کے حوالے سے قوانین کی کمی نہ ہے لیکن ان پر عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 196 قوانین صحت کے شعبے سے متعلق ہیں اور کچھ قوانین بہت پرانے ہیں جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے

Comments are closed.