نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں آج ریئل اسٹیٹ پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس “ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کا از سر نو تصور”کا آغاز ہوا-
یہ کانفرنس نمل کے فیکلٹی آف مینجمنٹ سائنسز نے اسلامک ریلیف، ہائر ایجوکیشن کمیشن ، اور انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز
کے اشتراک سے منعقد کی ہے۔
کانفرنس کا مقصد پاکستان کی ریئل اسٹیٹ انڈسٹری کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کرنا اور ان کا حل پیش کرنا ہے۔
کانفرنس میں سات موضوعات، چار تعلیمی سیشنز، اور آٹھ صنعتی سیشنز شامل ہیں، جن کا مقصد انڈسٹری کے مستقبل کے لیے ایک مضبوط بنیاد رکھنا ہے۔ ان سیشنز میں شہری ترقی، بے قاعدگیاں، اور دیگر مسائل پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، اور پاکستان کی معیشت میں اس شعبے کی شراکت کو بڑھانے کے لیے پائیدار حل تلاش کیے جائیں گے۔
افتتاحی سیشن میں مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس، ریاض حسین پیرزادہ نے شرکت کی۔
امارت گروپ کے سی ای او شفیق اکبر نے کلیدی خطاب کیا، جبکہ آئی ایم سائنسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان غنی نے تعلیم اور اختراع کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر نمل کے ڈائریکٹر جنرل، بریگیڈیئر شہزاد منیر نے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے نمل کی اہم مسائل پر کانفرنسز منعقد کرنے کی روایت کو سراہا۔ انہوں نے شہری ترقی کے باعث پیدا ہونے والے چیلنجز، جیسے ٹریفک کے مسائل، آلودگی، اور اربن سپرال جیسے مسائل پر روشنی ڈالی اور اس شعبے کی معیشت میں کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بے قاعدگیوں کو دور کرنے اور بہتر منصوبہ بندی کے لیے ایک مرکزی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔
وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس، ریاض حسین پیرزادہ نے نمل کی اس کانفرنس کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کی کانفرنسز حالیہ سالوں میں بہت کم ہوئی ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دی اور انہیں قومی ترقی کے لیے متحرک ہونے کی تاکید کی۔
انہوں نے پاکستان کی ایران کے ساتھ رابطہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مختلف راستے موجود ہیں، لیکن پابندیوں کے باعث تجارت ممکن نہیں۔ تاہم، ایران گیس پائپ لائن جیسے منصوبے پاکستان کے توانائی کے بحران کے حل کے لیے ضروری ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی قدرتی خوبصورتی اور معدنی وسائل کی فراوانی کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
وزیر برائے ہاوسنگ اینڈ ورکس نے آبادی میں اضافے کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ مسائل منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے چین اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کی مثال دی، جنہوں نے آبادی پر قابو پانے کے لیے کامیاب پالیسیز اپنائی ہیں۔ انہوں نے ذاتی اور قومی اہداف طے کرنے اور ان کے حصول کے لیے عملی حکمت عملی وضع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
سی ای او امارت گروپ شفیق اکبر نے بتایا کہ ریئل اسٹیٹ پاکستان کی جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ ڈالتی ہے لیکن وسائل کی خراب انتظامی منصوبہ بندی کے باعث مکمل صلاحیت تک نہیں پہنچ پاتی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 8,000 ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سے 5,500 غیر قانونی ہیں، جو پائیدار ترقی کے لیے سنگین چیلنجز پیدا کرتی ہیں۔
شفیق اکبر نے مزید کہا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر آئندہ 25 سالوں میں تقریباً 20 ملین رہائشی یونٹس کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ اس صنعت کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کریں اور اس کے بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے جی ڈی پی میں ایک بلین ڈالر تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عثمان غنی، ڈائریکٹر آئی ایم سائنسز، نے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں تعلیم اور تحقیق کے کردار پر زور دیا اور کہا کہ اس صنعت میں قدر کے فرق اور بے قاعدگیوں کو دور کرنے کے لیے تعلیم اور تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان تعاون پر زور دیا تاکہ اس شعبے کی مکمل صلاحیت کو اجاگر کیا جا سکے اور ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق شہری منصوبہ بندی کو فروغ دیا جا سکے۔
رئیل اسٹیٹ سے جڑے مسائل اور اس کے حل پر آج چار مختلف سیشنز ہوئے-ماہرین نے رئیل اسٹیٹ کے مسائل اور اس کے حل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
Comments are closed.